وفاداری

وفاداری

وفاداری اور وفاشعاری اعلیٰ نصب العین کی خاطرزندگی گزارنےاورجدوجہدکرنے والےمعاشروں کا طرۂ امتیاز ہے۔ وفاشعاری خوشگوار اور دوستانہ ماحول میں پروان چڑھنے والاوہ گلاب ہے، جس کا معاندانہ ماحول میں پایا جانا نہ صرف انتہائی کمیاب بلکہ ناممکن ہے۔ وفاداری کا جذبہ ہمیشہ ہم خیال اور ایک جیسے نصب العین کو حاصل کرنے کےخواہش مند لوگوں میں پایا جاتا ہے۔بغض، نفرت اور حسد وفاشعاری کو پنپنے کا موقع نہیں دیتے،بلکہ اسے فوراً ختم کردیتے ہیں۔ جی ہاں! وفاداری کا جذبہ صرف محبت، مہربانی اور فراخ دلی کےماحول میں پھلتا پھولتا اور پروان چڑھتا ہے، جبکہ معاندانہ ماحول میں آہستہ آہستہ مرجھا کر ختم ہوجاتا ہے۔

وفاشعاری کی ایک تعریف ’’دل اور جان کے ساتھ مکمل آہنگی‘‘ کے الفاظ سے بھی کی گئی ہے،جو اگرچہ نامکمل تعریف ہے،لیکن درست ہے، تاہم روحانی اعتبار سے کمزورلوگوں کے سامنے وفاشعاری پر گفتگو کرنا بہت مشکل ہے۔ بات کرتے وقت سچ بولنا اور اپنے عہد و پیمان پر پورا اترنا جو کہ وفاشعاری کی علامات میں سے ہیں، روحانی آگاہی کےثمرات ہیں۔ جس طرح جھوٹ بولنے ، وعدوں کو پورا نہ کرنےاور اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہ کرنے والے منافقین سے روحانی آگاہی کی توقع رکھنا فریب خوردگی ہے، اسی طرح ان سے وفاداری کا مطالبہ کرنا بھی بے وقوفی ہے۔

جو انسان بے وفا شخص پر بھروسا کرتا ہے وہ بالآخر نقصان اٹھاتا ہے، جوانسان ایسے شخص کے ساتھ سفر کرتا ہے اسے راستے میں تنہا چھوڑدیا جاتا ہے اور جوانسان ایسےشخص کو اپنا رہنما بناتا ہے اسے ہمیشہ مایوسی اور نقصان کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔

جب میں وفاداری کی شدید خواہش رکھتا تھ

میری آنکھیں افسوس کے آنسوؤں سے تر ہوگئیں

اب میں راستے میں تنہا کھڑا ہوں اور میرے پاس اس مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے

وفاداری کے تمام اوصاف کا حامل شخص بھروسے اور اعتماد کے مقام کو حاصل کرسکتا ہے۔ وفاداری کے جذبے سے سرشار خاندان خوش و خرم رہ سکتا ہے۔ اس عظیم جذبے کی بدولت کوئی بھی قوم قابل تعریف کمالات اور اعلیٰ اقدار کو حاصل کرسکتی ہے۔ اسی جذبے کے نتیجے میں کوئی ریاست اپنے شہریوں کی نظروں میں محترم بن سکتی ہے۔ جس ملک میں وفاداری کا فقدان ہو اس میں سنجیدہ افراد، پُراعتماد خاندانوں اور رشتوں اور مستحکم اور قابل اعتماد حکومت کے بارے میں گفتگو کرنا فضول ہے۔ ایسے ملک میں لوگ ایک دوسرے پر شک و شبہ کرتے ہیں، ازدواجی رشتوں میں بے سکونی پائی جاتی ہے ، خاندان پریشانی اور بے چینی کا شکاررہتے ہیں، حکومت اپنے شہریوں کو شک و شبہ اور حقارت کی نظر سے دیکھتی ہے اور پڑوسی ایک دوسرے سے ایسے بیگانے ہوجاتے ہیں جیسے وہ پتھر کی بے جان چٹانیں ہوں۔

وفاداری لوگوں کو متحد اور یکجا کرتی ہے۔ وفاشعاری کی بدولت ذرات مل کر مجموعہ بن جاتے ہیں، متفرق اجزاء مل کر ایک ہوجاتے ہیں اورقلت کثرت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ جب زمین کے ان باسیوں کی وفاداری کی شعاعیں ابدی آسمانوں تک پہنچتی ہیں تو آسمان سے آنے والی شعاعیں ان کے راستے کو روشن کرنا اور ان کے سامنے سے تمام رکاوٹو ں کو دور کرنا شروع کردیتی ہیں اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے، جب تک معاشرہ وفاداری کے جذبے کو پروان چڑھاتا رہتا ہے اور اپنے آپ کو وفاشعاری کے متحد کرنے والے بازوؤں کے سپردکردیتا ہے۔

کیا آپ نے کسی خیال کو شدت سے چاہاہے؟ کیاآپ نے اپنے آپ کو کسی نصب العین کے لیے وقف کیا ہے؟ کیا آپ نے کسی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے؟ اس مقصد کے لیے ہوسکتا ہے آپ کو اپنی جان تک قربان کرنی پڑ جائے یا اپنی ساری دولت سے ہاتھ دھونا پڑ جائے، لیکن خدارا! وفاشعار رہیے گا، کیونکہ وفاشعار لوگوں کا مقام خدا اور مخلوق دونوں کی نظروں میں بہت بلند ہوتا ہے۔

مجھے خدا کی طرف سے یہ آواز آئی

اے محب! آجا ، تیرا ہمارے ساتھ قریبی تعلق ہے

یہ مقامِ ولایت ہے

ہم نے تجھے اپنا وفادار بندہ پایا ہے! (نسیمی)

حضرت آدم علیہ السلام نے وفاداری کی کنجی ہی کی مدد سے ایک ایک کرکے وہ تمام دروازے کھول لیے جو ان کے لیے بند ہوچکے تھے اور بالآخر وہ حق تعالیٰ کی مغفرت کے فرحت بخش چشمے تک پہنچ گئے۔ اسی قسم کی صورت حال ابلیس کو پیش آئی، لیکن اس نے اپنے آپ کو بے وفائی کے جال میں پھنسا کر برباد کردیا۔

طوفان کے نبی حضرت نوح علیہ السلام نے عمر دراز تک مصائب اور تکلیفیں سہیں، لیکن اس کے باوجود وہ ہمیشہ وفادار رہے۔ صدیوں پر محیط ان کی وعظ ونصیحت کا ان کی قوم کی اکثریت پر کوئی اثر نہ ہوا، لیکن ایسے مایوس کن حالات میں بھی انہوں نے اپنے پروردگار سے بے وفائی کا کبھی نہیں سوچا۔ یہی وفاشعاری ان کے لیے ایسے وقت میں سفینہ نجات ثابت ہوئی جب زمین و آسمان انسانیت پر غیظ و غضب برسا رہےتھے۔

ابوالانبیاء اورخلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نمرود کی آگ کی تپش میں جھلستے ہوئے کس قدر وفاشعار ثابت ہوئے ؟جب ان کی پکار ’’میرے لیے اللہ کافی ہے‘‘ اللہ تعالیٰ کی موسلا دھار رحمت ا ور احسانات کے ساتھ یکجا ہوئی تو جہنم کی آگ جیسے خوفناک شعلے ان کے لیے ٹھنڈک اور سلامتی والے بن گئے۔[1]

تمام مقدس ہستیوں کے امام حضرت محمدﷺاپنی روح میں رچی بسی ہوئی سچی وفاشعاری کے جذبات ہی کی بدولت آسمانوں کے پار اس معراج[2] تک گئے، جو آپ سے پہلے کسی کوبھی حاصل نہ ہوئی تھی۔ جی ہاں!آپﷺوفاداری کی بنا پر ہی تمام فرشتوں اور فانی روحوں پرسبقت لے گئے، لیکن پھر آپﷺآنکھوں کو خیرہ اور دلوں کومسحورکردینےوالے ایسےحسین مناظرجنہیں کسی آنکھ نےدیکھا اور نہ کسی دل میں ان کا خیال گزرا، کی پُرسعادت سلطنت کوچھوڑ کر اپنی قوم کی طرف واپس لوٹ آئے، جہاں آپﷺنے اپنے رفقاء کے ساتھ مل کر اپنی قوم کوبھی اُس بلند مقام تک پہنچانے کے لیے ہر قسم کے خطرات اورتحدیات کا مقابلہ کرتے ہوئے جدوجہد کرنی تھی۔

یہ آپ ﷺکی اپنے صحابہ کرام کے ساتھ وفاشعاری کا کرشمہ تھا کہ آپﷺجنت اور اس کے خیرہ کن حسن و جمال کو بھول گئے ۔ یہ وفاداری کا عہد و پیمان ہی تھا، جس نے آپ ﷺکو ان عظیم الشان اعزازات و انعامات کو چھوڑ کر محرومیوں اور تکلیفوں سے بھری ہوئی اس دنیا کی طرف لوٹنے پر مجبور کیا۔

ان تمام بلند ہستیوں کے اعمال ناموں کا خاتمہ وفاداری پر ہوا اور ان پر وفاشعاری کی مہر لگائی گئی، جبکہ راستے میں ساتھ چھوڑ جانے والوں کے بُرے اعمال ناموں پر بے وفائی کی مہر چسپاں کی جاتی ہے۔ جی ہاں، جو لوگ کوئی ذمہ داری اٹھاتے ہیں،لیکن چند قدم چل کر بے وفائی کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ ذلیل اور گھٹیالوگ ہوتے ہیں اور انہیں پست ترین مقام کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔ جو لوگ مقدس سفر اور بوجھ کو برداشت نہ کرسکے اورجنہوں نے اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برتی وہ اپنا راستہ بھول کر درست راستے سے بھٹک گئے، لیکن جب بالآخر اس مقدس آز مائش سے گزرنے کی ہماری باری آئی تو ہم نے وفاداری کے ایک پختہ عہدو پیمان کے ساتھ اس بھاری ذمہ داری کو اٹھا لیا۔

لیکن افسوس ایک غیر متوقع جن نے ہمارا راستہ روک لیا اور ہم نے اپنے تمام پیمان توڑ ڈالے۔ ہر کوئی ہمارا ساتھ چھوڑ گیا، ہماری بہادری ماند پڑ گئی بلکہ آہستہ آہستہ ختم ہی ہوگئی،پھولوں کی جگہ کانٹوں نے لے لی، ہمارے تمام آفتاب و مہتاب ایک ایک کرکے غروب ہوگئے اور ہر طرف بےزارکن اور تکلیف دہ بادل چھا گئے۔ ہمارےسارےگلشن اجڑ گئے اور باغبان مرگئے۔ ’’شہد کے چھتوں کو توڑ دیا گیا اور کچھ شہدبھی باقی نہ رہا۔‘‘[3] قحط الرجال کے اس دور میں ہماری اس بدقسمت نسل کے نوجوان ان مردہ دل لوگوں کی شان میں قصیدے پڑھنے اور ان کے آگے جھکنے لگے،جن میں ذرہ برابر بھی وفاداری نہ تھی۔ وہ غیر مہذب اور بدمزاج لوگوں کی یہ کہہ کر تحسین و تعریف کرنے لگے: ’’واہ! وہ کتنے زیرک اور شریف انسان ہیں! ‘‘

اس المناک دور میں محمد عاکف کے درج ذیل اشعار لوگوں کے مایوس اورکراہنےوالےدلوں کی آخری صدا ہیں:

اب کوئی وفاداری باقی رہی ہےاور نہ ہی وعدوں کی پاسداری

اعتماد ایک بےمعنی لفظ بن کر رہ گیا ہے

جھوٹ کا دور دورہ ہے اور غداری اور اقربہ پروری معمول کی بات ہے

حق کا کسی کو علم نہیں

اے میرے خدا! یہ کتنی بری صورتحال ہے!

کس قدر اچانک اور خوفناک انقلاب برپا ہوچکا ہے!

دین باقی رہا ہے اور نہ ایمان

دین تباہی کا شکار ہے اور ایمان خواب و خیال بن کر رہ گیا ہے

تاریخ کے اس مرحلے میں ہر طرف جھوٹ بولنے والوں کا دور دورہ تھا، جنہوں نے اپنے عہد و پیمان کی دھجیاں بکھیر دی تھیں اور وہ کسی بھی قسم کی وفاداری کے جذبے سے عاری تھے۔ان پر زمین و آسمان کے باسی لعنت کرتے تھےاور لوگ کہتے تھے: ’’یہ تمام جھوٹے اورغنڈے کہاں سے وارد ہوگئے ہیں؟ کس غدار نے انہیں گود لیا ہے؟ کن بدقسمت والدین نے ان کی پرورش کی ہے؟ اور کن منحوس زبانوں نے انہیں یہاں خوش آمدید کہا ہے؟‘‘

اے وفاداری ! تم کہاں ہو؟ ہم ان لوگوں سے بے زار ہوچکے ہیں، جو آئے دن اپنے وعدوں کو پامال کرتے ہیں، جن کا ایک ایک لفظ مبالغہ آرائی پرمبنی ہوتا ہے، جن کا ہر کام دکھاوے کے لیے ہوتا ہے اور جو وفاداری کے جذبے سے بالکل عاری ہیں۔ ہمارے وہ وفاشعاردوست کہاں ہیں،جومحض وفاداری کی خاطر اس جگہ کئی دنوں تک انتظار کرتے ہیں جہاں تم نے ان سے ملنے کاوعدہ کیا تھا؟ وہ بہادر روحیں کہاں ہیں،جو وفاداری کے ساتھ یک جان ہوچکی ہیں؟ دورِ سعادت کے وہ معصوم اور امانت دار دوست کہاں ہیں جو وفاشعاری کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہیں؟

آؤ اور ہمارے خیالات کو تروتازگی بخشو اور جو کچھ بھی تم وفاشعاری کے بارے میں جانتے ہو اس سے ہمیں آگاہ کرو! اٹھو اور ہماری روحوں میں داخل ہوجاؤ،جوعزم و استقامت، جفاکشی اور وفاشعاری کا درس فراموش کرچکی ہیں۔ آؤ اور احیائے نو کے سرچشمے کی طرف ہماری رہنمائی کرو۔ آؤ اور ان چند ایک وفاشعار لوگوں کو بچالو جو مایوسی اور ناامیدی کی حالت میں ادھر ادھر بھٹک رہےہیں۔

اس امید کے ساتھ کہ ہماری نسل نو، جو وفاشعاری کی پیاسی ہے وفا شعاری کے جذبے کی حفاظت کرے گی…………

[1] ﴿قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ﴾ [الانبیاء: ۶۹] (ہم نے حکم دیا اے آگ سرد ہوجااور ابراہیم پر سلامتی والی بن جا۔)
[2] آسمان کی طرف آپﷺکی معراج آپﷺکے اہم ترین معجزات میں سے ہے۔ آسمان کے اس سفر میں ایک خاص مقام تک حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ ﷺ کے ہمراہ گئے ، لیکن اس مقام پرپہنچ کر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ وہ اس سے آگے نہیں جاسکتے ، چنانچہ نبی کریم ﷺاللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنےکے لیے اس مقام سےآگےتنہا تشریف لے گئے۔
[3] یہ شاعر الواری افندی (متوفی ۱۹۵۶) کا قول ہے۔

Pin It
  • Created on .
حقِ اشاعت © 2024 فتح اللہ گولن کی ويب سائٹ. تمام حقوق محفوظ ہیں۔
fgulen.com یہ فتح اللہ گولن. کی سرکاری ويب سائٹ ہے۔