مثالی نسلیں ۔۱

عصرحاضر کے لحاظ سے مثالی نسلیں علم،ایمان،اخلاق اور فن کی ترجمان اور اپنے بعد آنے والوں کی روحانی معمار ہیں۔یہ لوگ اخروی غذا پانے والے اپنے دلوں کے الہام کی حرارت سے ضرورت مند دلوں کو گرما کر ہر معاشرتی طبقے کی تشکیل جدید کریں گے۔ماضی قریب میں ہماری قوم کی بدقسمتی،بے قدری،بلکہ جنون و ہذیان کا شکار ہونے کی اہم وجہ اس کی ایسی مثالی نسل سے محرومی تھی۔

پچھلی دو صدیوں سے ہم عین فتح کے لمحات میں بھی شکست سے دوچار ہوتے رہے اور کامیابی کے مواقع پر بھی نقصان اٹھاتے رہے ہیں۔اس دور میں ہم نے ایک دوسرے پر بھیڑیوں کی طرح حملے کرکے اپنے بعد آنے والی نسلوں کے دلوں میں بغض،حسد اور سیاسی تعصّب کے بیج بوئے۔اس دور میں براہ راست یا بالواسطہ سیاست میں حصہ لینے والے لوگ یا تو اپنی جماعت اور گروہ کو جتانے کے لیے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرنے کو جائز سمجھتے تھے یا اس وہم میں مبتلا تھے کہ وہ اقتدار میں آکر بہت سی چیزوں کو تبدیل کر دیں گے یا ملک کو بچالیں گے،لیکن فریقین میں سے کسی کو بھی یہ بات سمجھ میں نہ آئی کہ مطلوبہ مقاصد کو صرف ایمان،علم،اخلاق اور فکر کے فلک میں گردش کرنے والے انقلاب کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔چونکہ انہیں اس حقیقت کا ادراک نہ ہوسکا،اس لیے وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ مطلوبہ عظیم تبدیلی حقیقت سے خالی، کھوکھلی،ظاہری اور شکل وصورت کی تبدیلی ہے اور اصلاح کی اس عظیم کاوش کے دوران محض میک اپ اور رنگوں کی تبدیلی پر اکتفا کیے بیٹھے رہے۔اس پر مستزاد یہ کہ بعضوں نے بہت معمولی قیمت پر ملّیّت کی ترقی یافتہ سوچ کو شیطان کے ہاتھوں فروخت کر دیا،گویا وہ ہماری حقیقی ملی اقدار سے نامانوس سادہ لوح فاسٹس Faustus {qluetip title=[1]}(۱) فاسٹس(Faustus): یہ ایک جرمن جادوگرتھا،جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے دنیوی خزانوں کے بدلے اپنے آپ کو شیطان کے ہاتھ فروخت کر دیا تھا۔بعض شعراء نے اسے اپنی تحریروں کا ہیرو بنا کر پیش کیا ہے۔گوئٹے نے بھی اپنی مشہور ٹریجڈی میں اسے ذکر کیا ہے۔(عربی مترجم){/qluetip}ہے۔یہ لوگ حالات کے تقاضوں کے مطابق مسلسل اضطراب سے نہیں اکتائے۔اپنے بدلتے ہوئے مفادات اور امیدوں کے مطابق ایک دن ملت کی ایک ڈھنگ سے صورت گری کرتے تو دوسرے دن کسی دوسرے انداز سے اس کی منظرکشی کرتے،بلکہ زیادہ درست الفاظ میں ملت کی اس شاذ اور عجیب صورتحال کا اظہار کرتے۔کبھی انہوں نے ‘‘طورانیہ’’ کا نعرہ لگایا تو کبھی‘‘کاشتکار اور دیہاتی قوم’’ کی آواز بلند کی۔کچھ وقت ‘‘اشرافیہ’’ کے ساتھ گزارا پھر‘‘جمہوریت’’ کو پکارا اور ‘‘اشتراکیت’’کو اشارہ کیا،لیکن اس دوران وہ اپنی سرگردانی سے کبھی بھی نجات نہ پاسکے۔خاص طور پر ہمارے تعلیم یافتہ طبقے نے فرانس کی دوراندیشی،انگلستان سے مرعوبیت،جرمنی کی طرف میلان اور امریکا کے ساتھ عشق و محبت کو غیرمعیاری خواہشات اور زمانے کی الٹ پھیر کے مطابق زندگی کی توجیہہ کے لیے حرکتِ عمل اور مستقبل کی طرف جانے والے بحری جہازوں کے لنگرانداز ہونے کے لیے بندرگاہیں قرار دیا۔

حالانکہ حالات کا تقاضا یہ تھا کہ بحیثیت قوم ہمارے درمیان مشترک سوچ کو پختہ کیا جاتا، جس سے میری مراد یہ ہے کہ دین اور ملی جذبے کو ہر خواب و خیال سے بالاتر اور منفرد روحوں کے حقائق سے متجاوز ایسی مضبوط و محکم بنیادوں پر استوار کیا جاتا جو مضبوط اور صحیح ایمان،محکم فکر،پختہ اور دلوں میں راسخ اخلاق پر قائم ہیں۔درست سمت کی طرف چلنے والی اخلاقی تحریک جو اپنی روحانی اور معنوی ثروت کے فلک میں دوام اور تغیر کو قبول کرنے کے لیے تیار رہتی ہے، رضائے الٰہی کے محور سے اپنے آپ کو ہٹنے نہیں دیتی اور مفادات اور لالچ کے تمام دروازوں کو بند رکھتی ہے،آنے والی نسلوں کو مطلوبہ نجات کا مژدہ سنا سکتی ہے۔اس کے برعکس جب تک ہم مسلسل منحرف خطوط پر چلتے رہے اور دل میں یقین کے درجے سے محروم مخلوط ایمان اور عقل میں موجود مختلف تہذیبی تصورات و مفاہیم کی تاریکی میں چلتے رہے اس وقت تک ہم اپنی ملت کے مخصوص جوہر اور جذبے کی مکمل طور پر حفاظت کرسکیں گے اور نہ ہی امانت کو پوری دیانت داری کے ساتھ آنے والی نسلوں تک پہنچا سکیں گے۔

ان اضطراب انگیز مراحل کی خبر رکھنے والوں سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ ہم ماضی قریب میں کس قدر ذاتی اقدار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔اس دوران ہم نے ایسے جدید اسلوب اور فلسفہ حیات کے بارے میں سوچنا نہیں چھوڑا جو ہمیں واضح طور پر مختلف مفاہیم،ایک دوسرے سے بہت بعد رکھنے والے تصورات اور مکمل طور پر متناقض افکار سے دور رکھے،لیکن افسوس صدافسوس! عمر کا کتنا حصہ اسی خیال میں بے کار گزر گیا کہ ہم نئی چیزیں دریافت کریں گے۔جس طرح ہم ماضی میں جدید اسلوب اور نیا فلسفہ حیات نہیں پاسکے اسی طرح مجھے یہ بات مشکل دکھائی دیتی ہے کہ ہم مستقبل میں اسے پاسکیں گے،کیونکہ ہمارے لیے ممکن نہیں کہ اپنی ذاتی زندگی کی روحانی ومعنوی جڑوں کو مستحکم کیے بغیر خودی کی تعبیر کے لیے کسی جدید فکری نظام یا نئے اسلوب تک رسائی حاصل کرسکیں۔ہم نئے فکری نظام اور انوکھے اسلوب تک پہنچنے میں ناکام رہے ہیں۔اس پر مستزاد یہ کہ ہم مشکلات سے اٹی ہوئی فضا کے زیراثر مسلسل اضطراب و پریشانی کی کیفیت میں زندگی گزار رہے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ ہم بیک وقت مختلف اشیاء کو محسوس کرنے پرمجبورہیں۔اس دوران بہت سے مواقع ہمارے ہاتھ سے نکل گئے اورطاقت و قوت کے حصول کے کئی امکانات ضائع ہوگئے۔

گو ہمیں کتنا ہی لگے کہ ہم پچھلی دو ایک صدیوں سے کچھ نہ کچھ کام کر رہے ہیں ہم نے کوئی ایسا کارنمایاں سرانجام نہیں دیاکہ جس پر ہم اطمینان کا اظہار یا فخر کر سکیں اور جو ہماری تاریخ کی گہرائیوں اور ہمارے اندازفکر،اخلاق،ثقافت،فن اور معاشیات سے ہماری طرف منتقل ہونے والے ایمان کو عملی صورت دے سکے۔اگرچہ مخصوص مراحل میں خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے یا نوجوانوں کی خواہشات کو بھڑکانے کے لیے عملِ جراحی کی کاروائیاں کی جاتی رہی ہیں، لیکن ہم نے تو ایسی بے شمار امیدوں کی آواز ہی سنی،جنہوں نے ہمیں اپنی حقیقی ضروریات مثلا زمانے کی درست توجیہہ،علم کی قدرپیمائی،اتفاق و ہم آہنگی کی حکمت کا فہم اور اس غربت پر قابو پانا،جس نے طویل عرصے سے ہماری کمرتوڑ رکھی ہے،سے غافل کر رکھا ہے۔کمزور افکار اور اس زوال سے کہ جس نے ہمیں اپنے حواس کا قیدی بنا کر غافل کر دیا ہے،ہماری نجات ادراک و بصیرت اور وہبی علوم کے مالکوں،زمانے کو سمجھنے والوں،علم کے بے پناہ شوق کی ساتھ ساتھ حقیقت کے عاشقوں،موجود اور حقیقی مشکلات کے بوجھ اورمستقبل کے اندیشوں کی وجہ سے دہری کمر والوں،اپنے کردار اور افعال پر اپنے باطن کا پرتو ڈالنے والوں،اپنے دل کی بات ماننے والوں اور ہمیشہ آفاق سے پرے دیکھنے والوں کے ہاتھوں حاصل ہو سکتی ہے۔خداداد صلاحیتوں کے مالک ایسے بہادر جو اپنی نسلوں کو ایک مخصوص مقام تک پہنچانے کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے درد سے کراہتے ہیں،ان کے گدلے مستقبل کو اپنی جان کے آنسوؤں میں تبدیل کرکے حضرت ایوب علیہ السلام جیسا نوحہ کرتے ہیں،ان کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں اور اپنی لذتوں کو انعامات الہیہ سمجھ کر شکر کے جذبات کے ساتھ بلندیوں کی طرف پروازکرتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو ہماری سینکڑوں سالوں پر محیط حیات بخش اور پرشکوہ تاریخ سے روشنی اور قوت حاصل کرتے ہیں اور پھر ملت میں حقیقی اور بھرپور توانائی کی حامل ملت بننے کی روح پھونکتے ہیں۔وہ نوجوانوں کو ایمان،امید اور حرکت کی فکر کے ذریعے جوش دلاتے ہیں اور طویل عرصے سے خوفناک اور مہلک جمود کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہماری علمی فکر کے حوض سے نئے رجحانات کے دروازے کھولتے ہیں۔ہم بحیثیت قوم ان رجحانات کے ذریعے اپنے دلوں میں واقع ان عبادت خانوں کی طرف دوڑیں گے،جنہیں ہم کھو چکے ہیں۔ہم وصال کی خوشی کے آنسو بہائیں گے اور جنت کے گوشوں کی طرح اپنی ان نرم وگداز آرام گاہوں کی طرف لوٹ آئیں گے،جہاں ہم ان باغات کا پرتو دیکھیں گے،جنہیں ہم ایک عرصے سے گم کرچکے ہیں۔ہم حقیقت کی تلاش اور علم کے عشق کے اصولوں پر قائم اپنے مدارس کو نئے سرے سے دریافت کریں گے،کائنات کی طرف کھلنے والی کھڑکیوں کے ذریعے وجود سے ایک بار پھر آگاہی حاصل کریں گے۔۔۔سب سے مزید محبت کریں گے اور ہر چیز کو تقسیم کرنا سیکھیں گے۔ہم بڑھتے ہوئے قلق و اضطراب کی زندگی کے اخلاق کے ساتھ اپنے دلوں کی زمردی سطحوں پر سب کو گلے لگائیں گے،وجود کے مقابلے میں فن اور صنعت گری کے جذبات سے لبریز ہو جائیں گے اور آہوں،دھڑکنوں اور آنسوؤں کے ساتھ انسانی مناسبتوں کے بارے میں غوروفکر کرکے اپنی ذات کو تعبیر کریں گے۔