جوشین خالصتا ایک دعا ہے

جوشین کے متعلق بے شمار افکار و آرائش کی گئی ہیں ۔زیادہ تر شیعہ ذرائع سےموصول ہونے کے باعث اہل سنت کی جانب سے اس کے ساتھ سرد مہری برتی گئی ہے ۔کسی خاص دلچسپی کا اظہار نہیں کیا گیا ۔تاہم جوشین کے متعلق ہمارا نقطہ نظر خصوصی اہمیت کا حامل ہے ۔ا س لیے یہاں اوروں کے نقطہ نظر کو نقل کرنے کی بجائے ہم اپنی آرا پیش کرنا چاہتے ہیں۔

1۔ جوشین خالصتا ایک دعا ہے ۔اس کا کوئی بھی جملہ یا لفظ جوبھی لیاجائے اس میں سے اخلاص سے بھرپور دعا کے قطرے ٹپکیں گے ۔ اس صورت حال میں یہ چاہے جس کسی سے بھی منسوب ہو اس کی اصلیت متاثر نہیں ہونی چاہیے۔ہمیں یہ نہیں کہنا چاہیے ۔کہ "کسی بات کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب ہونے یاکسی اورشخص سے منسوب ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے۔"البتہ ہم یہ کہناچاہتے ہیں کہ "جوشین کی کم ازکم ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک دعا ہے۔ "اس میں کوئی اورخوبی نہ بھی پائی جائے تو صرف ایک دعا ہوناہی بجائےخوداس کی قدر و منزلت کاسبب ہونے کے لیے کافی ہے ۔" حالانکہ اس میں اوربھی کئی خصوصیات پائی گئی ہیں۔جن میں سے کچھ کا ذکر آگلے نکات میں کیاجائےگا۔پس صرف شیعہ کے متعلق شائیبے کے باعث جوشین کوتنقید کانشانہ بنانا حق تلفی ہوگی۔

پیغمبر انہ ارشادات:

2۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الفاظ تمام بشری الفاظ سے اعلی وارفع ہیں۔پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےالفاظ وبیانات کی سمجھ بوجھ کے ماہرین کے لیے یہ ایک آشکارا حقیقت ہے کہ جوشین آغاز سے اختتام تک پیغمبرانہ طرز بیان سے مسجع ہے۔اسی وجہ سے دعا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ کا استعمال زیادہ اہم او رقابل قبول ہے ۔پھر بھی یہ ترجیح پر منحصر ہے۔حالانکہ انسان نماز کے بعد کی دعا جس کسی بھی زبان میں کرے اس سے دعا کی اصلیت متاثر نہیں ہوتی۔ کیونکہ اللہ تعالی تمام زبانیں جانتا ہے اور دعا کی قبولیت کے لیے دل سے نکلنے والی پر خلوص دعا کو اہمیت دیتاہے ۔ درحقیقت کیا زبانوں او ررنگوں کا مختلف ہونا اس کی قدرت کی دلیل نہیں ہے؟

3۔ جیسا کہ ہم نے اوپرذکر کیاہے۔اہل سنت کے ذرائع میں "جوشین "کاذکر نہیں کیا گیا ۔صرف"حاکم"کی "مستدرق " میں "جوشین"کے چند فقرے ہم دیکھ سکتے ہیں ۔اس کے علاوہ کسی کتاب میں میں نے ابھی تک "جوشین"کے متعلق کوئی عبارت یابیان نقل ہوا نہیں دیکھا۔تاہم یہ شعر کی بناء پر لیے جانے والے مشترکہ اقطام کے مظاہر کے علاوہ کچھ نہیں ہےاورجوشین کے خلاف کوئی منفی اثر مرتب کرنے کی اہمیت کاحامل نہیں ہے۔

دراصل بخاری او رمسلم کی روایت کردہ بہت ساری احادیث ایسی ہیں جوکہ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ یاجوں کی توں "کلیاتی" کی "الکافی" میں موجود ہیں۔تاہم اہل سنت کے عالموں نے "کلیاتی "سے کچھ بھی نقل نہیں کیا حالانکہ اسی میں موجود احادیث بخاری اورمسلم میں بھی موجود ہیں۔چنانچہ شعر اور الفاظ کے لحاظ سے موضوع جرح احادیث نہیں ہیں۔"الکافی" میں موجودزیادہ تر احادیث کوشیعہ اماموں نے نقل کیاہے۔چنانچہ سنی عالموں کی طرف سے کام کے آغاز میں ہی اندیشے کااظہار کیاگیاہے ۔"جوشین"کے سلسلے میں بھی وہی صورت حال درپیش ہے۔اگر جوشین شیعہ اماموں کی وساطت سے نقل نہ کی گئی ہوتی تومیرے خیال میں سنی علماء اسے فورا ہاتھوں ہاتھ لیتے اور اسے سرکا تاج بناتے۔لیکن شعر کی بناء پر جوشین بدقسمتی کا شکار ہوئی۔ چنانچہ بے شمارلوگ صرف اسی وجہ سےجوشین کاسدباب کرنے کی قدرت نہیں رکھتے ۔ صدیوں پرانی اس سوچ کو رد کرنا ناممکن نہ بھی ہوتو مشکل ضرور ہے۔

4۔ بعض اوقات احادیث کے معیار کو جانچا نہیں جاسکتا،ایسے واقعات بھی کچھ کم نہیں ہیں جن میں اہل اللہ نے بذریعہ کشف پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے احادیث حاصل کی ہوں۔امام ربانی کہتے ہیں ۔"میں نے ابن مسعود سے یہ روایت جان کرکہ "سورتیں قرآن پاک میں سے نہیں ہیں"میں نے فرض نمازوں میں سورتوں کی تلاوت ترک کردی ۔جب مجھے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے خبردار کیاگیاکہ یہ سورتیں قرآن پاک میں سے ہیں تو میں نے فرض نمازوں میں انکی تلاوت پھر شروع کردی۔ کچھ لوگوں کا دعائے قنوت کو جو ہم پڑھتے ہیں،قرآن کریم کا جزو سمجھنا بھی ایک الگ دلیل کے طور پر قبول کیاجاسکتاہے اورپھر امام ربانی ایک اورمثال میں کہتے ہیں کہ "میں بعض مسائل میں امام شافعی کا مقلد ہوں (ان کی تقلید کرتا ہوں )تاہم مجھے تاکید کی گئی کہ امام ابوحنیفہ پیغمبرانہ مسلک کی نمائندگی کرتے ہیں۔میں بھی ابوحنیفہ کامقتدی بن گیا۔"

اس صور ت حال کے لیے واضح معیار درکارہیں ۔دوسری صورت میں ہر کوئی یہ دعوٰی کرے گا کہ اس نے بذریعہ کشف کچھ چیزیں حاصل کی ہیں ۔اس طرح سے بناوٹی کشف سے حاصل کردہ چیزوں کاڈھیرلگ جائے گا ۔لیکن بعض اہم شخصیات کو اس گروہ میں شامل کرنابھی بہت بڑی غلطی ہوگی ۔ان کا یہ کہنا کہ "ہم نے یہ چیز بذریعہ کشف حاصل کی "بالکل درست ہے ۔انہوں نے یقیناً اسی طرح سے حاصل کی ہوگی۔تاہم ان کو مخصوص احادیث کے معیار پر پرکھنا ناممکن ہے ۔اس لیے ماہرین حدیث نے اس قسم کے بیانات پر توجہ نہیں دی ۔تاہم اس کایہ مطلب نہیں ہے کہ یہ بیانات درست نہیں ہیں۔یہی سب کچھ جو ہم نے کہاہے جوشین پر بھی بالکل صادق آتا ہے ۔اس لیے ہم بلاشبہ کہتے ہیں کہ"معانی کے اعتبارسے جوشین پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بذریعہ وحی والہام آئی ہے ۔بعد میں اہل اللہ نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسے حاصل کیاہو۔ اس طرح جوشین ہم تک پہنچی ۔"

میرے خیال میں مزید برآں یہ شامل کرنا مفید ہوگا کہ امام غزالی جسے علامہ گمشن خانوی جیسے ولی اور یدیع الزماں جیسی گراں قدر شخصیت نے جوشین کوتسلیم کرکے انہوں نے اس کا ورد اپنایا ۔حتی کہ امام غزالی نے اس کی شرح بھی لکھی ہے ۔جوشین کے ماخذ کی قوت وقدسیت کے بارے میں کوئی او ردلیل نہ بھی ہو توان مذکورہ شخصیات کا اسے تسلیم کرنااور ہزاروں لاکھوں انسانوں کی جوشین سے دلی وابستگی اس امرکی متقاضی ہے کہ جوشین کے متعلق محتاط گفتگو کی جائے ۔صرف شعر کے حوالے سے ایک شائیبے کی بناء پر جوشین کوتنقید کانشانہ بنانا شائستہ زبان میں میں ایک حق تلفی ہے۔

بطور خلاصہ:

1۔ معانی کے اعتبار سے جوشین ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بذریعہ وحی والہام آئی ہے ۔بعد میں اہل اللہ میں سے کسی نے بذریعہ کشف اسے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاصل کیا۔ سواس طرح جوشین ہم تک پہنچی۔

2۔ اہل سنت کے ذرائع میں اس کا ذکر نہیں کیاگیا۔امام غزالی ،امام شاذلی اور بدیع الزماں جیسی شخصیات کی تصدیق کردہ اس مسئلے پر کیا ہمیں محتاط رویہ نہیں اپنایا چاہیے۔

3۔ جوشین کی کم ازکم ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک دعاہے ۔اس میں کوئی اور خوبی نہ بھی پائی جائے تو صرف ایک دعا ہونا ہی بجائے خود اس کی قدر ومنزلت کاسبب ہونے کے لیے کافی ہے۔