مثالی نسلیں ۔۲

ہمارا احیائے نو ایسے بہادر گروہوں کے ساتھ شدت سے مربوط ہے جو علم کے آفاق کو عبور کرکے حقیقت کی روشنی تک پہنچ چکے ہیں،جو بدنی مطالبات اور خواہشات کو ضرورت کے دائرے میں رکھنے پر قدرت رکھتے ہیں،جو ہمیشہ اپنے وجدان میں اللہ کی طرف بلانے والے ماورائی نغموں کی آواز سنتے ہیں،جو اپنے جوش اور آہ و بکا میں کسی حرف،لفظ اور آواز کی مدد کے بغیر اللہ تعالیٰ کے بارے میں بتاتے ہیں اور جن کی ہر سانس میں اس کی محبت کی خوشبو رچی بسی ہوتی ہے۔

چونکہ ان بہادروں نے شروع سے ہی اپنے آپ کو حقیقت کی ابدی غلامی کے لیے تیاری کیا تھا،اس لیے وہ معاشرے میں انتشار کا باعث بننے والے مطالبات کے کبھی بھی اسیر یا خدمت گار نہیں بنتے،بلکہ اپنی گردنوں پر ہمیشہ حق تعالیٰ کی غلامی کے جُوے کو محسوس کرتے ہیں۔وہ لانہایت کے مشاہدے کے لیے مسلسل کاوش کرتے رہتے ہیں،اپنی ساری زندگی الہام کی روشنی میں گزارتے ہیں،نئی واردات کی خاطر ہر نئے الہام کے ساتھ وہ دروازے کی درز میں وسعت پیدا کرنے پر اصرار اور دوسروں سے ممتاز ہونے کے باعث اکائیوں کو ہزاروں تک پہنچانے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں،جس کے نتیجے میں ہر لحظہ اور ہر آن وہ فنا میں بقا کی لذت،مزہ اور حظ اٹھاتے ہیں۔

ایسے بہادروں کا سلوک ایمان،عرفان،محبت،عشق اور روحانی ذوق کے دائرے میں مسلسل تجدیدپذیر رہتا ہے اور ان کے آفاق جیسی وسعت کے حامل پر فانی اور لانہائی کے درمیان تمیز کرنے والی وسعتوں میں پرواز کرتے ہوئے پھڑپھڑاتے رہتے ہیں۔ان کا سرمایہ علم اور ایمان ہوتاہے۔ان کا سرچشمہ قادرِمطلق ذات ہے اور ان کا راہِ طریق وہ عظیم راستہ ہے،جسے آنے جانے والے اللہ کے ہر نیک بندے نے طے کیا ہے۔وہ دین کی زبردست اور اچانک ظاہر ہونے والی عنایات الہیہ اور اپنے مرشدﷺپر بھروسا کرتے ہوئے ابدیت کے راستے پر گامزن رہتے ہیں اور اس طرح الحاد کا ایک دوسرا دور اور فترت کا زمانہ اپنے اختتام کو پہنچ کر طبیعت اور فطرت کی مخالفت کے گڑھے میں جاگرتا ہے۔

تاریخ کے کسی بھی دور میں انسان علم اور ایمان کے بغیر زندہ رہاہے اور نہ ہی معبدومعبود کے بغیر کوئی تہذیب پروان چڑھی ہے۔بلاشبہ بعض ایسے ادوار گزرے ہیں،جن میں انسان نے علم اور ایمان سے محرومی کے گڑھے میں گر کر اپنے فکری و روحانی افق کو تاریک بنا دیا تھا،لیکن ہر سقوط کے بعد وہ اپنے ضمیر کی گہرائیوں میں اللہ کے ساتھ اپنے تعلق کو محسوس کرتا،جس کے نتیجے میں وہ ٹھہراؤ،روحانیت،سرعت اور کشش کے لحاظ سے پہلے سے بہتر حالت کی طرف متوجہ ہوجاتا۔معبد اور معبود کے بغیر تہذیب اور علم و ایمان کے بغیر انسانیت کی بقا ماضی میں بھی صرف ایک عارضی اور وقتی صورت حال رہی ہے اورمستقبل میں بھی ایسا ہی ہوگا۔جب تک زمین و آسمان قائم ہیں اس وقت تک انسانیت کے دل سے معبدومعبود کی فکر کو نکالا جاسکتا ہے اور نہ ہی انسانیت کا بالکلیہ طور پر اللہ تعالیٰ سے رشتہ توڑا جا سکتا ہے۔چونکہ اپنی فطرت کے لحاظ سے وجدان اللہ تعالیٰ کے لیے وا ہوتا ہے،اس لیے بعض اوقات اس کے آفاق پر طاری ہونے والی تاریکی اور ظلمت سورج یاچاند گرہن کی طرح جلد ہی چھٹ جاتی ہے اور تاریکی کے بعد روشنی اور غروب کے بعد طلوع کا ظہور ہوتا ہے اور ایک ایسا دن بھی آتا ہے،جس میں زمانہ اور زمانے میں رہنے والے اللہ تعالیٰ کے مامور بہ فلک میں گردش کرتے ہوئے اخروی امور میں معاون اور پہلے سے بیان کردہ مناہج کے مطابق احکام الہیہ پر عملدرآمد کرنے لگتے ہیں۔

عصرحاضر کی نسل ہر جگہ اپنی ذات اور اپنے وجدان کی دنیا اور جنت گم گشتہ کی تلاش میں ہے۔اس کی طرف سے اس قدر قصد ہی اپنے ہیرو کو پانے اور حق کے خطوط تک پہنچنے کے لیے کافی ہے۔کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ وجدان اپنی طبیعت اور فطرت کے فلک میں ٹھہر چکا ہے اور اللہ تعالیٰ وجود،صورت اور رنگ کے انفاس اور کانوں،آنکھوں اوراحساسات کے راستے دل میں اترنے والی ہر چیز میں محسوس ہوتے ہیں۔

مزید یہ کہ الحاد نے مسلسل پیچھے ہٹنا شروع کر دیا ہے،بلکہ چیزوں کا خواہشوں،خوابوں اور رغبتوں کے ذریعے استحصال کرنے کے لیے ان سے ان کی روح اور ست نکال لینے کے بعد اپنی ذاتی کمزوری اور کھوکھلے پن کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔اس دوران اپنی حقیقت کو تلاش کرنے والی روحیں ایک بار پھر خودی کی دریافت کے لیے نکل کھڑی ہوئی ہیں۔ایسے حالات میں ضروری ہے کہ عام اشیاء کے ساتھ ہمارے تعلقات میں کچھ نہ کچھ کمی آئے اور خارقِ عادت امور کے ساتھ مرجعیت کا تعین ایک طرف اس فطرت کے ساتھ تعلق کی بنا پر ہو جو ہمارے دل میں اپنے ضعف اور کمزوری کے شعور سے عبارت ہے اور دوسری طرف اپنے وجدان کی گہرائیوں میں سہارے اور معاونت کے مرکز کے احساس کی بنیاد پر ہو،اس کے نتیجے میں ہمارے عزائم تنگ راستوں سے نکل کر لانہایت کے تقاضوں اور اس کی امیدوں کی طر ف متوجہ ہوں گے۔ اسی سلسلے میں ایمان اور عزم جو کہ کامیابی کی اہم ترین روحانی حرکیت (Dynamism) ہے ہر ایک میں اس کی لدنّی روح کی طاقت پیدا کر دیتا ہے۔ یہ روحانی طاقت لوگوں کی امیدوں اور عزائم کو ابھارتی ہے،ان کی نحوست اور کمزوری کو ختم کرتی ہے اور انہیں شخصیت سازی سے متصل پل عبور کراتی ہے تاکہ وہ اللہ تک پہنچ جائیں۔

انسان کو حقیقت تک پہنچانے والا سب سے تیز،مختصر اور محفوظ راستہ علم و عرفان سے بہرہ مند ایمان کا راستہ ہے۔روح نے اس راستے پرچل کر ہمیشہ عظیم ترین اور حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کی ہیں۔جب بھی عرفان کی غذا سے قوت حاصل کرنے والا ایمان مفقود ہوتا ہے تو اندھی طاقت حقیقت اور حقوق کی جگہ لے لیتی ہے۔ایسے حالات میں طاقت کے تشدد کا سامناکرنے سے گریز ممکن نہیں ہوتا۔اسلحے کا استعمال زیادہ ہو جاتا ہے،مال و دولت کا حکم چلتا ہے،بدمعاشوں کی بات مانی جاتی ہے،ریاکاری عام ہوجاتی ہے اور اس کا سکہ چلنے لگتا ہے۔ایسے حالات میں کائنات کی روح کو پانا اور کائنات سے پرے جھانکنا ناممکن ہو جاتا ہے۔

حالانکہ ہماری حقیقت کا لانہایت کی روح کے ساتھ مضبوط تعلق ہے۔اس تعلق کو سمجھنے اور اس کی وجہ سے مستقبل میں ہمیں ہونے والے فوائد کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ ہم بہت سی قربانیاں پیش کریں۔یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب تک ہم نہ صرف شخصی خوشیوں،دنیوی لذتوں اور مقام و منصب سے،بلکہ اپنے روحانی فیوض کے جذبات سے بھی دستبردار نہ ہوں گے اس وقت تک اس تعلق اور اتصال کی بات کوئی معنی نہیں رکھتی۔جب بھی یہ علاقہ اور تعلق قائم ہوگا تو مستقبل کی وہ دنیا وجود میں آجائے گی،جس میں حق کو سروں پر تاج کی حیثیت حاصل ہوتی ہے،حقیقت کو عزت و توقیر ملتی ہے اور طاقت کی سوچ اور خواہشات کی پیروی کو معیوب بات سمجھا جاتا ہے۔

سالہاسال سے ہم اپنے آپ کو اس روشن جہان کے ارادے سے راستے میں چلتا ہوا پاتے ہیں۔ہم بغیر اس کے کہ اپنے اردگرد صبح کے طلوع ہونے کی علامات کی تلاش میں کوئی اٹکل پچو لگائیں یا ریاضیات کی دنیا کی پراسرار طلسماتی تحقیقات میں مشغول ہوں ہر ایسی چیز کی قدرپیمائی کرتے ہیں،جو ہماری روحوں کے ساتھ تعلق پیدا کرکے مستحکم خدائی قوانین کی روشنی میں ان کی صحت وسلامتی کی طرف راہنمائی کرتی ہے،جس کے نتیجے میں ہم مشیت الٰہیہ اور ان نقاط کی دریافت کی بھرپور کوشش کرتے ہیں،جہاں ہمارا ان مقاصد کے ساتھ ملاپ ہونا ہے،جن کی یہ مشیت ضمانت فراہم کرتی ہے۔ہم یہ مقصد اپنی اس قوت ارادی سے حاصل کرتے ہیں،جو مشیت ایزدی سے تعلق کا اہم ترین ذریعہ ہے۔اس کے بعد بھی ہم اس راستے میں اپنی مبارک زندگی کے احیائے نو کے لیے اپنی جان اور وجود کو داؤ پے لگا دینے والے بہادروں کی طرح کوشاں رہتے ہیں۔

ہر ایک کو چاہیے کہ وہ سنجیدگی کے ساتھ ذاتی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اپنے آپ سے کہے: ‘‘آج کام کا دن ہے۔اگر میں کام کے لیے نہیں اٹھوں گا تو کوئی بھی نہیں اٹھے گا۔’’اور پھر پرچم اٹھانے کی غرض سے اگلی صفوں تک پہنچنے کے لیے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگا دے،تاہم اسے چاہیے کہ مقابلہ بازی کرے اور نہ ہی حمیت کا مظاہرہ کرے،بلکہ پرچم اٹھانے کی غرض سے پیش قدمی کرتے ہوئے دائیں بائیں چلنے اور نقل و حرکت کرنے کے لیے راستہ کھلا رکھے۔ہم میں سے بہت سوں نے دانستہ یا نادانستہ اپنے دلوں کی روشنی کو بجھا دیا ہے اور اپنے اعمال کے ذریعے اپنی روحوں کی آنکھوں میں تیزاب انڈیل دیا ہے۔اس تاریک دور میں ہماری قوم کی اکثریت اپنے جوہر کو حقیقت کے انوار سے منور کرنے کے لیے اٹھی اور نہ اُن روحانی حرکیات (Dynamics) تک پہنچی جو پانی،ہوا اور ہریالی کی طرح ہمارے احیاء کی توانائی شمار ہوتی ہیں۔ہم دورحاضر میں اللہ تعالیٰ پر بھروسا اور اپنی مخفی صلاحیتوں اور اخروی امور کے ساتھ اپنے تمام روابط پر اعتماد کرتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھ سکتے ہیں۔ہمارا تمام اشیاء کو روح کی آنکھ،کان اور ہاتھ سے دیکھنا،سننا اور تھامنا اور الہامی قوت فیصلہ کے ذریعے ان کی قدرپیمائی کرنا اسی مخفی قوت اور اخروی امور کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی پر موقوف ہے۔ہم اس موضوع کا خلاصہ جناب نیازی مصری کے الفاظ میں یوں بیان کرسکتے ہیں:‘‘ایسی روح اور حقیقت کو مت تلاش کرو جو تمہیں تمہاری ذات سے باہر لے جائے،بلکہ اپنے گریبان میں جھانکو،اپنے دل کی بات کو غور سے سنو اور اپنے نفس سے اپنی ماہیت کے عدسے کے استعمال کی طرف سیروسیاحت کا آغاز کرو۔‘‘