روح کے ربانی معمار

جب میں انسان کی اخلاقی اقدار اور باطنی گہرائیوں اور قلبی و روحانی زندگی کی اہمیت کا تذکرہ کرتا ہوں تو بعض لوگ حقارت سے اپنے ہونٹ بھینچنے لگتے ہیں، لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حقیقی انسانیت تک پہنچانے والا راستہ یہی اقدار ہیں۔ہم میں سے بعض لوگوں کے خیالات کچھ بھی ہوں،معاصرانسان جس نے اپنی جھکی ہوئی کمر پر طرح طرح کے معاشرتی،معاشی،سیاسی اور ثقافتی بحرانوں کا بوجھ اٹھایا ہوا ہے، کو مسلسل پیش آنے والی مصیبتوں اور تنگیوں سے بچانے کا واحد راستہ زندگی کو نئے سرے سے اوپر ذکرکردہ اقدار کے مطابق ڈھالنا ہے،لیکن اس حیات بخش پیغام کی تکمیل صرف ایسے ربانی لوگوں کے ہاتھوں ہو سکتی ہے،جو اپنی ذات کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اور اگر اسے کوئی اہمیت دیتے بھی ہیں تو اپنی نجات کو دوسروں کی نجات پر موقوف سمجھتے ہیں۔

اسلامی تعلیمات کے مطابق اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی ذمہ داری سے عہدہ برا ہونا اس کے راستوں کی تلاش میں جدوجہد اور ہمت کا مظاہرہ کرنے سے مربوط ہے۔ ہماری رائے میں ہمارے مستقبل قریب و بعید کی سلامتی اسی میں ہے کہ ہم دوسری روحوں کے لیے پناہ گاہ بن جائیں اور دوسروں کے دلوں کو منور کر کے اعلیٰ ترین مقام تک پہنچا دیں۔ہم ہمیشہ ایسے لوگوں کو موقع دینے کے خواہش مند رہتے ہیں،جو اپنے سینے پر گولیاں کھاتے ہیں،لیکن اپنے ذاتی مفادات سے منہ موڑ لیتے ہیں۔یہ بات محتاجِ دلیل نہیں کہ ہمارے کردار اور طرزِعمل پر اخلاقی اقدار کی چھاپ اس احساسِ ذمہ داری سے مربوط ہے،جس کی اعتقادی جڑیں ہمارے دلوں میں پیوستہ ہیں۔

بلاشبہ اس قسم کا احساسِ ذمہ داری،اولوالعزمی اور دعوتی قیادت کا ارادہ جو ہمیشہ ہماری انفرادیت کی حدود سے متجاوز ہوتا ہے اور سارے عالم پر محیط نظام کے سب سے زیادہ حیات بخش تخم کو جنم دیتا اور عالمی امن کا سب سے اہم سرچشمہ ثابت ہوتا ہے،ہماری نجات کا واحد راستہ اور ساری انسانیت کے لیے ناگزیر حقائق سے پردہ اٹھانے والی مؤثر آواز اوربلیغ زبان ہے۔ جو لوگ کائنات اور اس کے عمومی نظام کو نظرانداز کرکے اپنی زندگی اناپرستی کی گمراہ کن تاریکیوں میں گزارتے ہیں وہ کبھی بھی نجات نہیں پاسکتے۔ اپنی نجات تو درکنار بہت دفعہ یہ لوگ اپنے بارے میں حسنِ ظن رکھنے والوں کی ہلاکت کا باعث بھی بنتے ہیں۔مشاہدے سے ثابت ہے کہ انسانیت نے انہی ادوار میں ترقی کی جن میں وہ کائنات کے ساتھ ہم آہنگ اور متعارف رہی۔آج بھی مستقبل کے لیے منصوبہ بندی کرنے والوں کو اناپرستی ایک طرف رکھ کر دوسرے انسانوں کے ہاتھوں میں اپنے ہاتھ ضرور دینے چاہئیں۔عزائم و افکار کی حقیقی قدروقیمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مختلف اداروں میں باہمی اتفاق واتحاد اور تعاون کس حد تک ہے۔انفرادیت سے اجتماعیت اور قطرے سے دریا میں تبدیل ہو کر دوام حاصل کرنے کا واحد راستہ دوسروں کو زندگی عطاکرنے اور ان کی زندگی میں شریک ہونے کے لیے ان کے ساتھ گھل مل کر فنا ہو جانا ہے۔

ایک اور پہلو سے دیکھیں تو حقیقی انسان بننا جسم اور دنیوی عقلِ معاش کی مخالفت کرتے ہوئے دل کے حکموں کی اطاعت اور روح کی بات کو غور سے سننے سے مرتبط ہے۔انسان کو چاہیے کہ اپنے آپ کو اور اپنے ماحول کو اچھی طرح جاننے کے لیے ہر چیز کو دل کی آنکھ سے دیکھے اور پرکھنے کی اہلیت رکھنے والے قلبی معیاروں کے ذریعے اس کی قدرومنزلت کا اندازہ لگائے۔ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ جو شخص ہر لحظہ اپنے دل کی تروتازگی اور اپنی روح کی پاکیزگی کی حفاظت نہیں کرتا اور اپنے ذہنی،فکری اور شعوری سرمائے کے ساتھ ساتھ اپنے دل اور روح کی صفائی اور طہارت کا ہر لمحہ ایسے ہی خیال نہیں رکھتا جیسے بچوں کو صاف ستھرا رکھنے کا اہتمام کیا جاتا ہے،وہ کتنے ہی وسیع علم،ادب اور تجربے کا مالک کیوں نہ ہو اپنے اردگرد موجود لوگوں میں اعتماد پیدا کر سکتا ہے اور نہ انہیں اپنی بات کا قائل کر سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ عوام کی اکثریت ان سیاست دانوں پرمطمئن ہوتی ہے اور نہ ان پر اعتماد کرتی ہے جو فراست اور عقلی و قلبی استدلال کے بجائے طاقت اور جبر کا استعمال کرتے ہیں،اِلّا یہ کہ کچھ لوگ خوف اور مغلوبیت کی بنا پر موافقت کا اظہار کرتے ہیں۔پاکیزہ روحیں اور صاف دل ہمیشہ دل سے پھوٹنے والی پاک فکر اور بے داغ کردار کی پیروی کرتے ہیں۔اپنی فطری پاکیزگی کی حفاظت کرنے والے صاف ستھرے دل نے حق تعالیٰ کے ایک معلوم مگر مخفی اور مدفون گھر کو مختص کر لیا ہے۔اس گھر میں لاہُوتی حقیقت کا احساس اور شعور اس کے اخروی ابعاد کی پاکیزگی اور رفعت کے مطابق بلاکم و کیف ہو سکتا ہے۔بلاشبہ جنہوں نے رؤیتِ باری تعالیٰ کا دعویٰ کیا ہے ان کی رؤیت سے یہی مراد تھی۔زمانے کی حدود سے آزاد یہ پاکیزہ روحیں اس دنیا میں رہتے ہوئے اپنے دلوں میں موجود جنتِ طوبیٰ کی گٹھلی کے ذریعے اس فردوس تک پہنچ گئیں،جس میں دوسرے اہل ایمان آخرت میں داخل ہوں گے اور ایک ذرے کے ذریعے ساری کائنات پر مطلع ہوگئیں،بلکہ انہیں اس سے بھی دور واقع نقطے ‘‘رؤیت کے افق’’ تک پہنچا ہوا سمجھا جاتا ہے۔

قرآن اور صاحبِ قرآن ‘‘صاحبِ دل’’ کا تعارف یوں کراتے ہیں کہ وہ ایسا صاحبِ حقیقت انسان ہوتا ہے،جو اپنے دل کے قواعد کی روشنی میں دیکھتا، سوچتا اور کام کرتا ہے۔اس کا اٹھنابیٹھنا رحمت،اس کا کلام اور گفتگو اتحاد اور اس کے سارے احوال رقت و لطافت ہوتے ہیں۔اس قسم کے ربانی تصور کی غرض و غایت تمام ارواح کو ابدی وجود کی طرف منتقل کرنا،ہمیشگی کا اکسیر سب کو پیش کرنا اور اپنی ذات،ذاتی مفادات اور اپنے مستقبل کے افکار سے کلی طور پر بالاتر ہو کر اپنی ذات، عالم آفاق، دل کی دنیا اور اپنے پروردگار کے حضور پیش ہونا ہے،اس کے سینے میں نبوی دل ہوتا ہے،جسے دوسروں کے غموں کی فکر ہوتی ہے،لیکن اپنی جسمانی اور بدنی بدحالی کی پرواہ نہیں ہوتی۔وہ اپنے اردگرد بسنے والے انسانوں کی خوشحالی کے لیے منصوبے اور اپنے معاشرے کے امن اور خوشی کے لیے خاکے تیار کرتا ہے اور انسانیت خصوصاً اپنی قوم کی بدحالی اور تکلیف دہ صورت حال دیکھ کر اس پر باربار دورے پڑتے ہیں۔

اسی وجہ سے وہ نبوی عزم کا مالک ایک ایسا ہیرو ہے،جو سارے عالم خصوصاً دورِحاضر کے انسان کی جان کے درپے شرور سے برسرپیکار رہتا ہے اور بجائے اس کے کہ وہ ایسی بند گلی میں داخل ہو،جس کا حاصل یہ ہے: ‘‘باطل امور کی عمدہ منظرکشی صاف ذہنوں کی گمراہی کا باعث بنتی ہے۔’’وہ ان پروگراموں کی خاطر مسلسل جدوجہد کرتا ہے،جنہیں ان برائیوں کو ختم کرنے کے لیے ترتیب دیا جانا چاہیے۔وہ باربار لغزشوں کے کڑوے گھونٹ پینے سے اُکتاتا ہے اور نہ ہی اپنے فریضے کی سچی لگن،اپنی ذمہ داری کی ادائیگی کے شوق اور احساسِ احسان مندی سے سرشار ہو کر مشکلات پر ٹوٹ پڑنے سے تھکتا ہے۔وہ ایسا پُرعزم ہیرو ہے،جو اپنے عجزوفقر کے پروں کے ذریعے پرواز کرتا ہے،شوق اور شکر سے تناؤ کا شکار ہو جاتا ہے اور حقیقت اور عمومی ہم آہنگی کے احیاء کی ذمہ داری کے بوجھ تلے سسکیاں لیتا ہے۔یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے،جو فرد کے ادراک اور اس کے شعوری ارادے کے دائرے میں آنے والے کسی بھی مسئلے کو نظرانداز نہیں کر سکتی۔ یہ ایک ایسی ذمہ داری ہے،جس کاتعلق کائنات، واقعات،فطرت،معاشرہ،ماضی ومستقبل، زندوں اورمردوں،پیروجواں،تعلیم یافتہ اور اَن پڑھ،انتظامیہ اور امن غرض ہر انسان اور ہر چیز کے ساتھ ہے۔یہ بالکل فطری بات ہے کہ دل میں ان ذمہ داریوں کے الم و اضطراب کا احساس اور روح میں اس احساس کی وجہ سے باربار اضطراب کا پیدا ہونا ایسے انسان کے روزمرہ معمولات کا حصہ ہوتا ہے۔وہ دوڑ میں پہلا نمبر حاصل کرنے کے لیے مقابلے میں شریک ہوتا ہے۔میرے خیال میں یہی وہ عزم نبوی ہے،جو انسان کو اللہ تعالیٰ کے ہاں بلندترین مقامات تک پہنچاتا اور قرب خداوندی کا باعث بنتا ہے اور اس عزم کے ذریعے اسے روحانی معراج حاصل ہوتی ہے۔

احساسِ ذمہ داری خصوصاً اس کے دوم و استمرار کے نتیجے میں پیدا ہونے والا الم و اضطراب مقبول ترین دعا،متبادل پروگراموں کا عظیم سرچشمہ اور مخلص اور اپنی پاکیزگی کی حفاظت کرنے والے وجدان کے لئے مؤثرترین نغمہ ہے۔ہر روحانیت کا حامل انسان اپنے اضطراب کی بقدر نہ صرف اپنی ذاتی اور اپنی جماعت کی صلاحیتوں سے متجاوز رہنے کا اہل ہوتا ہے،بلکہ بسااوقات گزشتہ اور آئندہ نسلوں کی طاقت و قوت کا مرکزومحور بن جاتا ہے۔میں اس موقع پر اپنے لئے جینے والوں اور دوسروں کو زندگی عطا کرنے والوں کے درمیان پائے جانے والے فرق کی طرف متوجہ کرنا ضروری خیال کرتا ہوں۔ہم یہ بات بارہا کہہ چکے ہیں کہ جو لوگ اخلاص و وفاداری کے ساتھ دوسروں کی فکر میں زندگی گزارتے ہیں اور اپنی ذات کو نظرانداز کر دیتے ہیں،وہی تاریخی حقائق کے حقیقی وارث ہیں اور ہم بے خوف ہو کر اپنی جانیں ان کے پاس امانت رکھ دیتے ہیں۔یہ لوگ ہرگز نہیں چاہتے کہ عوام ان کے پیچھے لگے،لیکن ان کی ہستی ایک ایسی زوردار آواز ہوتی ہے کہ وہ جہاں کہیں بھی ہوں ساری مخلوق ان ربانیین کی طرف ایسے دوڑتی ہے جیسے وہ کشش کا مرکز ہوں حتی کہ بسااوقات لوگ ان کی خاطر بخوشی موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔

ان شاء اللہ اس پیغام کو پیش کرنے والے ربانیین کے مستقبل پر خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے اور انہیں اپنی ذمہ داری کی ادائیگی میں شاندار کامیابی حاصل ہوگی۔ہماری قوم اور اس کی بقا نئی اور تروتازہ تہذیب کے مجموعی عناصر اور ایک مالامال ثقافت کی حیات افروز اور وسیع تحریک ان ربانیین کی پیروی کرتے ہوئے اپنے مضبوط کندھوں پر پرچم اٹھائے گی اور انہیں آئندہ نسلوں کی طرف منتقل کر دے گی۔میں نے منتقل کرنے کا ذکر کیا ہے،کیونکہ وہ عالی حقائق کی امانت دار محافظ اور ہمارے تاریخی ورثے کی وارث ہے۔

تاریخ کی وراثت کا مطلب یہ ہے کہ ہم ماضی کے ہر معروف و مجہول اور چھوٹے بڑے ڈھیر کے وارث بنیں اور پھر اس ڈھیر میں اضافہ کرکے اور اس سے نئے مرکبات تیار کرکے اسے اس کی حقیقی مستحق آئندہ نسلوں کی طرف منتقل کر دیں۔ اگر اس وارث نے حاضر ومستقبل سے متعلق تاریخ کے اس پیغام پر کماحقہ توجہ نہ دی تو اسے حال ومستقبل کی بربادی کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔یہ ایک ایسی ذمہ داری ہے،جو غفلت کا مظاہرہ کرنے یا پیچھے ہٹ جانے یا یہ ذمہ داری سونپنے کے لئے کسی مناسب شخص کی تلاش کے لیے ٹھہر جانے،بلکہ آخرت کے دلکش مناظر سے مسحور ہو کر اپنی ذمہ داری سے غافل ہو جانے کی صورت میں وارث کو مخصوص درجے میں تاریخ کے ساتھ خیانت کرنے اور ہمارے اورمستقبل کے درمیان موجود پل کو گرانے کا موجب قرار دیتی ہے۔ہمیں ہر حال میں یہ یقین رکھنا چاہیے کہ ہمارے وجود اور بقا کے لحاظ سے مستقبل ہمارا ہے اور ہمیں اس کی طرف اسی نظر سے دیکھنا چاہیے۔دینی کارکردگی میں بہتری لانے کے لیے یہ بات بہت اہم ہے کہ ہم اس نکتے کو اپنے جذبات، افکار اور پروگراموں کی ترجیحات میں سرفہرست رکھیں،بصورتِ دیگر ہم امت کی تحقیر کرنے اور اس کے ساتھ خیانت کرنے کے مرتکب سمجھے جائیں گے۔اب وقت آچکا ہے،بلکہ نکلا چاہتا ہے کہ ہم دین، علم، فن، اخلاق، معاشیات اور خاندان جیسے تمام اداروں کا بوجھ اٹھا کر انہیں اپنی تاریخ میں ان کے حقیقی مقام تک لے جائیں۔امت مسلمہ اس ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے والے پُرعزم اور جفاکش لوگوں کی منتظر ہے۔

ہمیں ایسی اعلیٰ صفات یا فکری نظاموں کی ضرورت نہیں،جو ہمارے لیے باہر یا اندر سے بھیک مانگ کر لائیں،بلکہ ہمیں ایسے فکری اور روحانی معالجوں کی ضرورت ہے،جو ہماری قوم میں احساسِ ذمہ داری اور قلق و اضطراب کا شعور پیدا کریں۔۔۔ایسے فکری اور روحانی حکماء جو زوال پذیر خوشیوں کے وعدوں کے بجائے ہمیں روحانی گہرائی عطا کریں اور ہمیں ایک ہی جست میں ان مراتب تک پہنچا دیں جہاں سے ہم ابتدا و انتہا کو بیک وقت ایک ہی فاصلے سے دیکھ سکیں۔

ہمیں ایسے لوگوں کا انتظار ہے،جو اپنی ذمہ داری اور فرض سے اس قدرعشق کرتے ہوں کہ وہ اس کی خاطر جنت میں جانے سے رک جائیں،بلکہ اگر جنت میں داخل ہو چکے ہوں تو اس کی خاطر وہاں سے نکل آئیں۔ایسے لوگ جو یہ کہیں: ‘‘بخدا! اگر وہ اس شرط پر میرے دائیں ہاتھ پر سورج کو اور بائیں ہاتھ پر چاند کو رکھ دیں کہ میں اس دین کو چھوڑ دوں تو میں اسے نہیں چھوڑوں گا،یہاں تک کہ میری جان چلی جائے۔’’{qluetip title=[۲]}(۲) السیرۃ النبویۃ،ابن ھشام،۱؍۲۸۵.{/qluetip} یہ نبوی افق ہے۔اسی افق سے پھوٹنے والے انوار سے منور ایک عقل کسی مخصوص حالت میں کہتی ہے: ‘‘میرے دل میں جنت کی رغبت ہے اور نہ جہنم کا خوف ۔۔۔ اگر مجھے اپنی امت کے ایمان کے بارے میں اطمینان ہو جائے تو میں جہنم کی آگ میں جلنے پر بھی راضی ہوں۔’’{qluetip title=[۲]}(۲) سوانح عمری،بدیع الزمان نورسی،۴۵۷.{/qluetip} پھرخشوع سے اپنے آپ پر جھک کر یا ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہوئے کہتی ہے: ‘‘اے خدا! میرے جسم کو اتنا بڑا کر دیجئے کہ اس سے جہنم بھر جائے اور اس میں میرے سوا کسی کے لیے جگہ نہ رہے۔’’اس کی یہ آہ وبکا سن کر آسمان بھی کانپ اٹھتا ہے۔

آج کے انسان کواپنی قوم کے گناہوں پر رونے والے ایسےاہل عمق کی ضرورت ہے،جو انسانیت کی مغفرت اور بخشش کو اپنی مغفرت پر ترجیح دیتے ہوں اور جو ‘‘اعراف’’پر کھڑے ہو کر اہل جنت کی خوشیوں سے ایسا حظ حاصل کریں کہ اگر وہ خود جنت میں داخل ہو جائیں تو اپنی ذاتی خوشیوں سے اتنے محظوظ نہ ہوں۔