شوریٰ

شوریٰ آج کے ربانیین اور ماضی کے ورثہ سب کے لیے حیات بخش وصف اور بنیادی اصول کی حیثیت رکھتی ہے۔قرآنِ کریم میں اسے مسلم معاشرے کی واضح ترین علامت اور اسلام کو اپنے دل میں جگہ دینے والی جماعت کی اہم ترین خصوصیت بتلایا گیا ہے۔قرآنِ کریم میں شوریٰ کو نماز اور انفاق کے ساتھ ایک ہی فہرست میں ذکر کیا گیا ہے: ﴿وَالَّذِیْنَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّہِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَأَمْرُھُمْ شُورَی بَیْنَہُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاھُمْ یُنفِقُونَ﴾ [الشوریٰ:۳۸](اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور اپنے کام آپس کے مشورے سے کرتے ہیں اور جو مال ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔) اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ اس طرف توجہ دلا رہے ہیں کہ شوریٰ عبادت کا ہم پلہ معاملہ ہے،نیز حق تعالیٰ نے اس حیات افروز مسئلے کو حکم خداوندی پر لبیک کہنے کے سیاق میں بیان کیا ہے اور اس لبیک کہنے کے تقاضوں اور نتائج میں نماز،شوریٰ اور انفاق کو ذکر کیا ہے۔

اس پہلو سے دیکھیں تو شوریٰ کو نظرانداز کرنے والے معاشرے کو کامل معاشرہ کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس اصول پر عملدرآمد نہ کرنے والی جماعت کو صحیح مسلمان جماعت قرار دیا جا سکتا ہے،لہٰذا دین اسلام میں شوریٰ بنیادی اہمیت کی حامل ہے،جس پر رؤساء اور ان کے پیروکاروں کے لیے عمل کرنا ضروری ہے۔جس طرح رؤساء سیاسی،انتظامی،قانونی اور معاشرے سے متعلق دیگر امور کے بارے میں مشاورت کرنے کے پابند ہیں اسی طرح عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ان معاملات میں اپنے رؤساء کے سامنے اپنی رائے اور افکار کا اظہار کریں۔

شوریٰ کے بارے میں چند نکات کی طرف توجہ دلانا مفید معلوم ہوتا ہے۔ شوریٰ کسی بھی مسئلے سے متعلق ممکنہ حد تک درست رائے تک پہنچنے کے لیے بنیادی شرط ہے۔بہت دفعہ فرد یا معاشرے سے متعلق فیصلوں میں دوسروں کی آراء اور تنقید سے فائدہ نہ اٹھانے کے برے نتائج سامنے آ چکے ہیں۔کوئی شخص کتنا ہی سلیم الطبع،ذہین اور عبقری کیوں نہ ہو اگر وہ صرف اپنی ہی رائے پر اعتماد کرے گا اور دوسروں کی آراء کی پرواہ نہ کرے گا تو وہ اس شخص سے زیادہ غلطیوں اور لغزشوں کا نشانہ بنے گا جو اوسط درجے کی صلاحیتوں کا مالک ہے،لیکن اپنے معاملات میں مشاورت کا اہتمام کرتا ہے۔سب سے زیادہ عقلمند وہ شخص ہے،جو سب سے زیادہ مشاورت کا التزام اور سب سے زیادہ دوسروں کی آراء سے استفادہ کرتا ہے۔دوسری طرف اپنے کاموں اور منصوبوں میں اپنے ہی افکار پراکتفا کرنے اور انہیں دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرنے والے شخص کے کام کرنے کی صلاحیت لازمی طور پر بری طرح متاثر ہوتی ہے اور اسے اپنے اردگرد کے لوگوں کی طرف سے جس نفرت،ناپسندیدگی اور اکتاہٹ کے جذبات کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ اس پر مستزاد ہے۔

لہٰذا مشاورت نہ صرف کسی بھی کام سے بہترین فوائد حاصل کرنے کی شرط اوّل ہے،بلکہ اپنی استعداد اور اہلیت کو کئی گنا بڑھانے کا اہم ترین ذریعہ ہے۔

کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے ہمیں وسیع پیمانے پر مشاورت اور غوروخوض کے ساتھ ساتھ سنجیدہ طریقے سے اسباب و تدابیر اختیار کر لینی چاہئیں،تاکہ ہم انجام کار مصائب میں اضافے کا باعث بننے والے نقصان دہ اقدامات مثلاً تقدیر پر اعتراض یا قریبی ساتھیوں پر الزام تراشی وغیرہ کرنے سے بچ سکیں۔اگر کام کا پختہ ارادہ کرنے سے پہلے انجام پر غوروفکر اور اصحاب علم اور تجربہ کار لوگوں سے مشورہ نہ کیا جائے تو ندامت اور دل شکستگی سے فرار ممکن نہیں۔کتنے ہی کام ہیں جن میں لوگ بغیر سوچے سمجھے کود پڑتے ہیں،لیکن چند ہی قدم چلنے کے بعد ان کے دل میں ندامت کا احساس اور واپسی کا خیال پیدا ہونے لگتا ہے اور دوسروں کی نظروں میں مقام اور اعتماد کھو بیٹھتے ہیں۔

اسلامی نظام کا یہ اصول ہے کہ اس کے قیام اور دوام کے سلسلے میں شوریٰ اہم ترین عامل کی حیثیت رکھتی ہے۔فرد اور معاشرے، ملک و ملت، علوم و معارف اور اقتصادیات و عمرانیات سے متعلق کسی بھی مسئلے میں اگر صریح نص موجود نہ ہو توشوریٰ اس کے حل کا اہم ترین عنصر ہے۔ اسلامی نظام حکومت میں شوریٰ کمیٹی انتظامی اداروں پر فوقیت رکھتی اور ان کی راہنمائی کرتی ہے،جبکہ موجودہ ترک حکومت کی شوریٰ کمیٹی اسلام میں شوریٰ کے مقابلے میں محدود ذمہ داریوں اور کم اختیارات کی حامل ہے۔

سربراہ ریاست تائید خداوندی اور وحی و الہام پر مبنی تعلیم و تربیت کا حامل ہونے کے باوجود شوریٰ کا پابند ہوتا ہے۔ماضی اور حال میں ہمارا یہی موقف رہا ہے۔ اگرچہ بعض اوقات شوریٰ کو نظرانداز کیا جاتا رہا ہے،لیکن اکثر اقوام اور معاشرے مختلف ناموں سے اس کی روح پر عمل پیرا رہے ہیں۔آج تک کوئی بھی معاشرہ اسے نظرانداز یا فراموش کر کے کامیاب نہ ہو سکا۔رسول اللہﷺنے اپنے ارشاد ‘‘استخارہ کرنے والا کبھی نامراد ہوا اور نہ ہی مشورہ کرنے والا کبھی نادم ہوا۔’’ {qluetip title=[(۱)]}(۱) الطبرانی،المعجم الأوسط،۶؍۳۶۵.{/qluetip} میں امت کی فلاح اور اس کے مستقبل کے تحفّظ کو شوریٰ کے ساتھ مشروط فرمایا ہے۔

شوریٰ کا ذکر قرآنِ کریم کی دوآیات میں صراحتہً اور متعدد آیات میں اشارۃً آیا ہے۔درج ذیل دو آیات بغیر کسی تاویل یا توجیہ کے صراحتہً شوریٰ کو امر خداوندی قرار دے رہی ہیں: ﴿وَشَاوِرْھُمْ فِیْ الأَمْرِ﴾ ]آل عمران:۱۵۹[(اور اپنے کاموں میں ان سے مشورت لیا کرو۔’’ ﴿وَأَمْرُھُمْ شُورَی بَیْنَہُمْ﴾]الشوریٰ:۳۸](اور اپنے کام آپس کے مشورے سے کرتے ہیں۔) شوریٰ کے بیان پرمشتمل سورت کا نام شوریٰ رکھنے میں بھی بڑی لطیف حکمت ہے۔

اس سورت مبارکہ میں شوریٰ کو صحابہ کرام کے توصیفی وصف کے طور پر ذکر کیا گیا ہے،گویا اس آیت مبارکہ میں مشاورت کو اپنے تمام کاموں اور امور کا محور بنانے والے حضرات کی تعریف پر مبنی یاددہانی ہے۔صحابہ کرام کے بہت سے توصیفی اور تعریفی اوصاف میں سے شوریٰ کے وصف کا انتخاب بھی مشاورت کی اہمیت کی دلیل ہے۔

جس طرح قرآنِ کریم شوریٰ کو ایک اہم اصول قرار دیتا ہے،اسی طرح سنت مطہرہ بھی اسے بہت زیادہ اہمیت دیتی ہے،بلکہ اس بارے میں بہت سی نصوص موجود ہیں۔رسول اللہﷺہر اس معاملے میں،جس میں نص موجود نہ ہوتی، مرد و عورت اور پیر و جوان ہر شخص سے مشورہ فرماتے۔مختلف میدانوں میں ہونے والی ترقی کے باوصف شوریٰ کے معاملے میں ہم اس مقام تک نہیں پہنچ سکے،جس تک صحابہ کرام اُس دور میں پہنچے تھے۔

رسول اللہﷺصحابہ کرام کے ساتھ ہر معاملے میں مشورہ فرماتے اور اس بارے میں ان کی آراء و افکار معلوم کرتے۔آپﷺان کے لیے کوئی بھی کام تجویز فرماتے تو اس کے بارے میں ان کی عمومی موافقت حاصل کرتے اور اپنے فیصلوں کو مضبوط ومستحکم کرنے کے لیے صحابہ کرام کے عمومی وجدان،احساسات اور میلانات کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے طور پر استعمال فرماتے۔آپﷺ ان سے متعلق کسی بھی کام کا منصوبہ بناتے تو اس میں سب کی فکری اور جذباتی شرکت کو یقینی بناتے اور یوں اپنے منصوبوں کو صحیح ترین اعداد و شمار کے ساتھ پایۂ تکمیل تک پہنچاتے۔

آئیے اس بارے میں آپﷺ کی حیات طیبہ سے چند واقعات کا جائزہ لیتے ہیں: جب سیدالانام حضرت محمدﷺ غزوہ احد کے لیے نکلے توآپﷺ نے صحابہ کرام کوکچھ ہدایات دیں اور جنگی حکمت عملی کے کچھ امور کی رعایت کی۔اس موقع پر آپﷺکے نافذ کردہ جن امور پر آپ کو کسی بھی قسم کی مخالفت یا اعتراض کا سامنا نہیں کرنا پڑا ان میں یہ بھی تھا کہ آپﷺنے جبل احد کے ایک بلند مقام پر تیراندازوں کو تعینات فرمایا،دشمن سے جنگ کی صورت میں حکمت عملی بتائی،جنگ کا نتیجہ خواہ کچھ بھی نکلے انہیں اپنی جگہیں چھوڑنے اور مال غنیمت اکٹھا کرنے کے لئے نیچے اترنے سے منع فرمایا۔اس کے علاوہ اور بھی ہدایات ارشاد فرمائیں،تاہم صحابہ کرام اطاعت کے بارے میں اعلیٰ درجے کا فہم اور ذوق رکھنے کے باوجود اس نبوی حکم کی اختتامی مدت کی تعیین میں اجتہادی غلطی کے مرتکب ہوئے اور اس طرح مخفی طور پر آپﷺکی مخالفت کر بیٹھے۔رسول اللہﷺ کو غزوہ اُحد میں یہ دوسری بار ضمنی طور پر مخالفت کا سامنا ہوا۔اگر آپﷺ کے سواکسی اور کو اس قدر نقصانات کا باعث بننے والی مسلسل مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑتا تو وہ ان کی آراء کو نظرانداز کرتے ہوئے کہتا: ‘‘دفع ہو جاؤ۔۔۔خدا تمہیں غارت کرے! ’’لیکن آپﷺنے ایسا نہ کیا،بلکہ جس وقت صحابہ کرام اپنے درمیان خطاکاروں اور بے قصوروں کے امتیاز میں مصروف تھے آپﷺ ان کے سامنے ﴿وَشَاوِرْھُمْ فِیْ الأَمْرِ﴾ [آل عمران:۱۵۹](اور اپنے کاموں میں ان سے مشورت لیا کرو۔) والی آیت تلاوت فرما رہے تھے اور ایسی حالت میں انہیں مشاورت کے لیے جمع فرما رہے تھے،جب آپﷺکا چہرہ انور آپﷺکے صحابہ کرام کی وجہ سے دشمن کے بدترین حملے سے خون آلود تھا۔آپ ﷺ شہداء کے کٹے پھٹے جسموں کے درمیان کھڑے تھے اور صحابہ کرام اس قدرحیران و پریشان تھے کہ بعض توآزمائش کی اس گھڑی میں نتائج کی پرواہ کئے بغیر مدینے کی طرف لوٹ گئے،لیکن آپﷺنے ان سے مشاورت پر ہی اکتفا نہ کیا،بلکہ انہیں یہ بھی بتایاکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو ان کے لیے بخشش اور مغفرت طلب کرنے کا حکم دیا ہے۔

اس طرح رسول اللہﷺنے واضح فرما دیا کہ وحی کے انوار میں زندگی گزارنے کے باوجود انہیں بھی مشاورت کا حکم دیا گیا ہے۔دراصل آپﷺرؤساء کو ان کی ذمہ داری یاد دلا رہے ہیں،عوام کے لیے اپنی آراء پیش کرنے کا راستہ کھول رہے ہیں،انہیں رؤساء کے ساتھ تعاون کرنے کی ہدایت دے رہے ہیں اور رؤساء کو جبرواستبداد سے منع فرما رہے ہیں۔

جب غزوہ احد کے بعد حکم خداوندی ﴿وَشَاوِرْھُمْ فِیْ الأَمْرِ﴾ [آل عمران: ۱۵۹](اور اپنے کاموں میں ان سے مشورت لیا کرو۔) نازل ہوا تو آپﷺنے وضاحت فرمائی: ‘‘اللہ اور اس کے رسول کو مشورے کی ضرورت نہیں،لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے امت کے لیے بطور رحمت کے نازل فرمایا ہے،لہٰذا جس نے مشورہ کیا اس نے درست فیصلہ کیا اور جس نے اسے چھوڑا وہ گمراہ ہوا۔’’چنانچہ نبی کریمﷺکو مشورے کی ضرورت نہ ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی طرف سے مشاورت کرنے کا حکم دیئے جانے سے ہم رؤساء کے لیے مشاورت کا التزام کرنے کی اہمیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

ذیل میں ہم آپﷺکی احادیث طیبہ میں سے چند جواہر پارے آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:

’’جس نے استخارہ کیا وہ نامراد نہ ہو گا،جس نے مشورہ کیا وہ پشیمان نہ ہو گا اور جس نے میانہ روی اختیار کی وہ تنگدست نہ ہو گا۔’’{qluetip title=[(۲)]}(۲) الطبرانی،المعجم الأوسط،۶؍۳۶۵.{/qluetip}‘‘مشورے کے نتیجے میں کوئی کبھی نامراد نہ ہوا اور مشاورت سے استغناء برت کر کوئی بامراد نہ ہوا۔’’ {qluetip title=[(۳)]}(۳) مسندالشھاب،۲؍۶.{/qluetip}‘‘جس سے مشورہ لیا جاتاہے اسے امانت دار سمجھا جاتا ہے۔’’{qluetip title=[(۴)]}(۴) أبوداؤد، الأدب،۱۱۴؛الترمذی،الزھد،۴۹؛الأدب،۵۷.{/qluetip}‘‘بخدا!جس قوم نے بھی مشورہ کیا اسے موجود امکانات میں سے بہترین کے انتخاب کی توفیق دی گئی۔’’{qluetip title=[(۵)]}(۵) البخاری،الأدب المفرد،۱؍۱۰۰.{/qluetip} یہی وجہ ہے کہ علمائے اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ شوریٰ اسلام کا ایک اہم اصول اور واجب العمل حکم ہے۔مختلف ادوار اور حالات میں کسی نہ کسی درجے میں اس حکم پرعمل ہوتا رہا ہے۔

یہ بات واضح ہے کہ شوریٰ کوئی ایسا قانونی ماخذ نہیں ہے،جسے خدائی احکام پر فوقیت حاصل ہو،لیکن یہ قوانین اور نظاموں کی اساس ضرور ہے،تاہم حقیقی قانونی مآخذ کے ذریعے اس کی حدود مقرر ہیں،جن مسائل کے بارے میں واضح نص موجود ہو اسلام ان میں انسانی مداخلت کی اجازت نہیں دیتا،البتہ ایسے مسائل میں نصوص کے مقاصد کی وضاحت کے لیے شوریٰ کی طرف مراجعت کی جائے گی،تاہم وہ تمام امور جن کے بارے میں کوئی نص موجود نہیں وہ شوریٰ کے دائرے میں داخل ہیں اور ان مسائل کے بارے میں شوریٰ جو فیصلہ کرتی ہے وہ نصوص کی طرح واجب الاطاعت ہوتا ہے،جس کی مخالفت جائز ہے اور نہ ہی اس سے معارض کوئی دوسری رائے پیش کی جا سکتی ہے۔اگر اکثریت کے اتفاقِ رائے سے شوریٰ کے کسی فیصلے میں کوئی غلطی پائی جاتی ہے تو اس کے ازالے کا ذریعہ بھی شوریٰ ہی ہے۔

اگرچہ شوریٰ کی عبارات کسی نہ کسی مفہوم میں عموم پر دلالت کرتی ہیں،لیکن مخصوص مواقع سے متعلق نصوص اور رسول اللہﷺکے طرز عمل کی وجہ سے ان میں خصوص بھی پایا جاتا ہے۔اسلام میں نصوص نے صرف کلی اصول اور عمومی قواعد کی حیثیت رکھنے والے معدودے چند موضوعات کی پوری وضاحت کی ہے اور فروعی مسائل کی زیادہ تفصیلات بیان نہیں کیں۔جن مسائل کے بارے میں نص موجود نہیں وہ مکمل طور پر شوریٰ اور باہمی مشاورت کے دائرے میں داخل ہیں۔اگرچہ اسلام میں صریح احکام والے مسئلے کو شوریٰ کی حدودسے خارج اور صریح احکام نہ رکھنے والے مسائل کو اس کی حدودمیں داخل قرار دیا گیا ہے،لیکن شوریٰ ہر حال میں اسلام سے مرتبط،قرآن و سنت سے ہدایت کی طلبگار اورکتاب اللہ میں بیان کردہ مقاصد کی تکمیل کے لیے کوشاں رہتی ہے۔اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ اسلام کے اہم ترین اہداف میں انسانوں کے درمیان مساوات کا قیام،جہالت کو مٹانا،علم کو پھیلانا،تمام مسائل کو اسلامی تشخص کے گرد بُننا،مسلمان اور اس کی ذات کے درمیان تضاد کو ختم کرنا،وطن عزیز کے رہنے والوں کی بین الاقوامی حلقوں میں اپنے مقام اور وقار کی حفاظت کرنے کے بارے میں راہنمائی کرنا،فرد اور معاشرے میں معاشرتی انصاف کا قیام،قوم کے ہر فرد میں دوسروں کی غمخواری،احترام اور محبت کے جذبات کو فروغ دینا، قربانی پیش کرنا،دوسروں کی خاطر جینے کے لیے مادی اور روحانی فیوض کے احساسات میں شدت پیدا کرنا،دنیا اور آخرت کے درمیان توازن برقرار رکھنے کا اہتمام کرنا،داخلی اور خارجی سیاست کو منظم کرنا،دنیا میں ہونے والی ترقی کے ساتھ ساتھ چلنا اور طاقت کے ذرائع کو تیار اور اپ ڈیٹڈ رکھنا اور نفسیاتی جنگ کے لیے اس قدر تیار رہنا کہ اگر ساری دنیا کا مقابلہ بھی کرنا پڑے تو کیا جا سکے، شامل ہیں۔قدیم ترین دور سے آج تک بڑے بڑے قائدین،مفکرین اور فلاسفہ ان انسانی مسائل کے حل پیش کرتے رہے ہیں۔پیغمبراسلامﷺنے بھی اپنی حیات طیبہ میں اپنی تشریعی اور اُسَوِی ذمہ داری کے دائرے میں اس ہدف کو حاصل کرنے کا اہتمام فرمایا اور اسی بنیاد پر انسانی زندگی،ثقافتی سرگرمیوں،مساعی اور باہمی تعلقات کی عمارت کو استوار فرما کر انسانوں کے احساسات، افکار،عقلوں،فراست اور دلوں کے درمیان ہم آہنگی پیداکی۔

شوریٰ اپنی خصوصیات کی بدولت مخصوص نتائج کی ضمانت فراہم کرتی ہے اور اس کے کچھ اصول و قواعد ہیں،جن کی بدولت مطلوبہ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ان میں سے کچھ اصول حسب ذیل ہیں: ‘‘فکری سطح کی بلندی،معاشرے میں شمولیت،ہر معاملے میں فرد کی رائے لے کر اس کی اہمیت کو اجاگر کرنا،متبادل افکار سوچنے کی حوصلہ افزائی کرنا،اسلام کے مستقبل کی خاطر شوریٰ کے قیام اور سرگرمیوں کا تحفظ، حتی الامکان ہر معاملے کے انتظام میں زیادہ سے زیادہ افراد کی شمولیت،رؤساء کے ذہنوں میں یہ خیال پروان چڑھانا کہ ضرورت پڑنے پر ان کا بھی محاسبہ ہو سکتا ہے اور رؤساء کے تادیبی اقدامات کی روک تھام اور حدبندی وغیرہ۔‘‘

ابھی اوپر ہم اس بات کا ذکر کر چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آیت مبارکہ ﴿وَشَاوِرْھُمْ فِیْ الأَمْرِ﴾ [آل عمران:۱۵۹] (اور اپنے کاموں میں ان سے مشورت لیا کرو۔) میں شوریٰ کی حیات بخش اہمیت کی بنا پر صحابہ کرام کی تعریف کی ہے۔معرکہ کے اختتام پر مشکل ترین گھڑی میں اس کا باعث بننے والے صحابہ کرام کے ساتھ سیدنا حضرت محمدﷺ کو مشاورت کا حکم دینے میں بڑی حکمت پوشیدہ ہے۔

ان دو آیات مبارکہ میں بیان کردہ شوریٰ کے اصول میں بہت لچک پائی جاتی ہے۔یہ وقت کی ضرورتوں پر لبیک کہتے ہوئے زمانے کی حدود سے آگے نکل جانا ہے۔دنیا میں کتنی ہی تبدیلیاں کیوں نہ ہو جائیں اور زمانہ کتنا ہی کیوں نہ گزر جائے، بلکہ اگر انسان فضا میں جا کر وہاں شہر بسا لے تب بھی ان دو نصوص میں کسی قسم کے اضافے کی ضرورت پیدا نہیں ہوگی۔درحقیقت اسلام کے دوسرے تمام اصول و قواعد میں بھی ایسی ہی لچک اور عالمگیریت پائی جاتی ہے،جس کی بدولت انہوں نے وقت گزرنے کے ساتھ اپنی تروتازگی اور کارکردگی کو برقرار رکھا اور آئندہ بھی برقرار رکھیں گے۔

شوریٰ سے متعلق چند بنیادی امور کا تذکرہ فائدے سے خالی نہ ہو گا۔

۱۔ شوریٰ رؤساء اور عوام دونوں کا برابر درجے کا حق ہے۔آیت مبارکہ﴿وَأَمْرُھُمْ شُورَی بَیْنَہُمْ﴾[الشوریٰ:۳۸](اور اپنے کام آپس کے مشورے سے کرتے ہیں۔) شوریٰ میں فریقین کی مساوات پر دلالت کر رہی ہے۔چونکہ مسلمانوں کے معاملات کا تعلق سارے مسلمانوں کے ساتھ ہوتا ہے،اس لیے ان کے بارے میں غوروفکر کے حق میں بھی سب برابر ہوتے ہیں،تاہم یہ حق زمان و مکان اور حالات کے بدلنے سے بدلتا رہتا ہے اور مشاورت کے عمل کے طریقِ کار میں تبدیلی سے اس میں بھی تبدیلی ہوتی ہے۔

۲۔ چونکہ حکم خداوندی﴿وَشَاوِرْھُمْ فِیْ الأَمْرِ﴾ [آل عمران:۱۵۹] (اور اپنے کاموں میں ان سے مشورت لیا کرو۔) کے بموجب سربراہ معاشرے سے متعلق معاملات میں مشاورت کا مکلف ہے،اس لیے اگر اس نے مشاورت کے دائرے میں داخل ان امور کو اہل رائے کے سامنے پیش نہ کیا تو اس سے بازپرس ہوگی،نیز اگر عوام کے سامنے یہ معاملات مشاورت کے لیے پیش کئے گئے،لیکن انہوں نے اپنی رائے کا اظہار نہ کیا تو اس کوتاہی کی ذمہ داری ان پر عائد ہو گی،بلکہ اگر انہوں نے محض رائے کے اظہار پر اکتفا کیا،لیکن اسے قبول کرنے پر دوسروں کو قائل کرنے کی کوشش نہ کی تب بھی وہ شہری حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے والے سمجھے جائیں گے۔

۳۔ شوریٰ کا ایک اہم اصول مشورہ دینے میں رضائے الٰہی کا حصول، مسلمانوں کے مفاد کی جستجو اور رشوت،دباؤ یا دھمکیوں کے ذریعے اہل شوریٰ کی آراء پر اثرانداز ہونے سے احتراز ہے۔رسول اللہﷺکاارشاد مبارک ہے: ‘‘جس سے مشورہ کیا جاتا ہے اسے امانت دار سمجھا جاتا ہے۔’’ لہٰذا کسی شخص سے کسی معاملے میں مشورہ مانگا جائے تو اسے ایسے ہی مشورہ دینا چاہیے جیسے وہ اپنی ذات کے لیے مشورہ دے رہا ہو۔

۴۔ بعض اوقات مشاورت میں مکمل اتفاق رائے نہیں ہو پاتا۔ایسی صورت میں اکثریت کی رائے پر عمل کرنا چاہیے،کیونکہ صاحب شریعت ﷺنے اکثریت کو اجماع کا درجہ دیا ہے۔ ارشادِنبوی ہے: ‘‘اللہ کا ہاتھ جماعت کے اوپرہے۔’’ {qluetip title=[(۶)]}(۶) الترمذی ، الفتن،۷.{/qluetip} ‘‘میری امت گمراہی پر متفق نہ ہو گی۔’’ {qluetip title=[(۷)]}(۷) ابن ماجۃ،الفتن،۸.{/qluetip}‘‘میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ میری امت کو گمراہی پر جمع نہ فرمائے،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے میری یہ دعا قبول فرما لی۔’’ {qluetip title=[(۸)]}(۸) المسند،الامام أحمد،۶؍۳۹۶.{/qluetip}

آپﷺاپنے ان ارشادات میں ہمیں بتا رہے ہیں کہ اکثریت کی بات میں اجماع کی تاثیر پائی جاتی ہے اور یہ کہ سوادِاعظم کی پیروی کرنی چاہیے۔ آپﷺکی حیات طیبہ میں اس کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔بدر و احد کے آغاز و اختتام پر آپﷺ کی مشاورت بھی اس کی اہم مثال ہے۔

۵۔ اگر مشاورت شرائط کے مطابق ہوئی ہو تو بالاتفاق یا اکثریت کی رائے سے کیے گئے فیصلے کی مخالفت میں یا متبادل کے طور پر کوئی دوسری رائے پیش کرنا درست نہیں۔فیصلے کی مخالفت میں دوسری رائے کے حق میں دلائل پیش کرنا یا اصل فیصلے پر حاشیے میں مخالف رائے کو ذکر کرنا گناہ اور غلط اقدام ہے۔رسول اللہﷺاحد کی طرف اپنے اجتہاد کے برخلاف اکثریت کی رائے کے مطابق گئے تھے،لیکن آپﷺنے اکثریت کی رائے غلط ثابت ہو جانے کے باوجود غزوہ احد کے آغاز یا اختتام پر اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں فرمایا،حالانکہ قرآنِ کریم میں غزوہ احد کی تیاری کے دوران اِن مقربینِ خدا سے اِس لغزش کے بارے میں بازپرس کے احتمال کی طرف اشارہ بھی موجود ہے۔

۶۔ شوریٰ کا کام زیادہ تر پیش آمدہ مشکلات کا حل تلاش کرنا ہوتا ہے نہ کہ ممکنہ طور پر پیش آ سکنے والے واقعات کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنا۔اسلامی زندگی کا سفر واضح طور پر نصوص کی روشنی میں جاری رہتا ہے۔شوریٰ کے دائرے سے خارج واقعات اور دیگر ضروری منصوبوں اور پروگراموں کو ان کی انفرادی خصوصیات،شرائط اور حالات کے مطابق حل کیا جاتا ہے۔

۷۔ اراکینِ شوریٰ حسبِ ضرورت جمع ہوں گے،مشکلات و مسائل پر غوروفکر کر کے حکمت عملی اور منصوبوں پر عمل درآمد کرائیں گے اور اہداف کی تکمیل تک کام میں لگے رہیں گے۔ ہمارے علم میں مخصوص اوقات میں شوریٰ کے اجلاس بلانے اور اس کے لیے تنخواہیں اور معاوضے مقرر کرنے کے بارے میں کوئی نص نہیں ہے۔باقی قانون سازی کے مرحلے کے بعد جاری ہونے والی تطبیقات پر عملدرآمد کے ہم پابند نہیں ہیں،نیز مشاہدے سے ثابت ہے کہ تنخواہ دار ملازمین پرمشتمل شوریٰ کمیٹی کی صورت میں پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔

شوریٰ پر گفتگو کرتے ہوئے اصحاب شوریٰ پر گفتگو کرنا ناگزیر ہے،چونکہ مشاورت کے لیے سارے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا ممکن نہیں ہے،اس لیے ان میں سے ایک منتخب جماعت کا اجتماع بھی کافی ہے،تاہم اس جماعت کے افراد کو ان صلاحیتوں،علوم و فنون، اختصاصات اور تجربات میں امتیازی مقام حاصل ہونا چاہیے جن کی مشاورت کے لیے پیش کیے جانے والے موضوعات کے لحاظ سے شوریٰ کو ضرورت ہوتی ہے۔ایسے حضرات کو اہل علم کی اصطلاح میں‘‘اصحاب حل و عقد’’ کہتے ہیں،جو مشکلات کو حل کرنے کی اہلیت کی بنا پر بلند مقام پر فائز ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے مفید علمی،فنی اور ہندسی موضوعات کا اختصاص اور تجربہ رکھنے والے حضرات کی موجودگی بھی ضرورت کا تقاضا ہے،نیز ‘‘اصحاب حل و عقد’’ کو اسلامی علوم،حقائق اور روحانیت میں بلند مقام حاصل ہونا چاہیے۔دورحاضر میں زندگی کے مختلف مسائل باہم مربوط ہونے اور ہر مسئلے کے عالمگیر صورتحال اختیار کرنے کی وجہ سے اس کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ایسے مسائل کے بارے میں شوریٰ میں موجود مختلف اختصاصات کے حاملین پر اعتماد کیا جا سکتا ہے،بشرطیکہ علمائے اسلام کی محتاط رائے کے مطابق ان کے دین سے ہم آہنگ ہونے کی تسلی کر لی جائے۔جس طرح شوریٰ‘‘اصحاب حل وعقد’’ پر موقوف ہوتی ہے اسی طرح وقت اور حالات کی تبدیلی سے اس کی ہیئت کذائیہ کا مدار بھی ‘‘اصحاب حل و عقد’’ پر ہی ہوتا ہے۔تاریخ کے اوراق پر نظر ڈالنے سے مختلف حالات اور ادوار میں شوریٰ کی عملی صورتوں میں تنوع ملتا ہے۔مختلف تاریخی حالات میں کبھی اس کا دائرہ تنگ رہا ہے اور کبھی وسیع تر،کبھی وہ صرف سول افراد پر مشتمل ہوتی تھی اور کبھی فوجیوں اور ادیبوں کو بھی اس میں شامل کر لیا جاتا تھا۔ اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ اس کے اصولوں میں تبدیلی ہوتی رہی ہے،بلکہ اس کا سبب وہ لچک اور عالمگیریت تھی،جس کی وجہ سے شوریٰ ہر دور اور ہر جگہ قابل عمل رہتی ہے۔

زمان و مکان اور حالات کے اختلاف کی وجہ سے شوریٰ پرعملدرآمد کے طریقِ کار میں کتنا ہی تفاوت کیوں نہ ہو شوریٰ کے سینئر ارکان کا علم،انصاف،فکرونظر، تجربے،حکمت اور فراست کے ساتھ اتصاف ایک ناقابل تغیر اصول ہے۔عدالت فرائض کی ادائیگی،محرمات سے اجتناب اور انسانی اقدار کے منافی رویے سے احتراز سے عبارت ہے۔علم دین،انتظامات،سیاست اور فنون کی واقفیت اور تجربے کا نام ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ایک ہی شخص متعدد علوم میں متخصص ہو،بلکہ شوریٰ کمیٹی کا مجموعی طور پر ان موضوعات سے باخبر ہونا ضروری ہے۔غوروفکر اور تجربے پر مبنی موضوعات کے بارے میں غیرمسلم اہل علم کی طرف بھی رجوع کیا جا سکتا ہے۔جس طرح بعض اوقات حکمت کو مفہوم اور حالات کے اعتبار سے علم و حلم اور نبوت کا مترادف قرار دیا جاتا ہے، اسی طرح اسے نورِفراست کے ذریعے اشیاء کے پردے کے پیچھے موجود حقائق سے واقفیت، لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ امور پر غوروفکر اور انفرادی و اجتماعی مشکلات کو حل کرنے کی اہلیت سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے،تاہم حکمت سے بہرہ مند لوگ کم ہوتے ہیں،لیکن اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے اور ہر دور میں اسے احترام اور مقبولیت حاصل ہوتی ہے۔

نبی کریمﷺکا عمربھر مشاورت کا اہتمام اور ہر عمر اور ہر سطح کے افراد کی رائے کا احترام قابل توجہ امر ہے۔رسول اللہﷺہر وقت دوسروں کی رائے سننے کے لیے تیار رہتے،ان کے افکار سے مانوس ہوتے اور منصوبوں کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے درست ترین راستوں کی جستجو میں رہتے۔آپ ﷺکبھی اصحاب رائے سے الگ الگ رائے لیتے اور کبھی مشاورت کو اجتماعی شعور سے مستحکم کرنے کے لیے سب کو اکٹھا فرماتے۔ذیل میں آپﷺکی سیرت طیبہ سے کچھ مثالیں پیش کی جاتی ہیں:

۱۔ واقعہ افک کے دوران رسول اللہﷺنے حضرت علیرضی اللہ عنہ ،عمر رضی اللہ عنہ، زینب بنتِ جحش رضی اللہ عنہا ، بریرہ رضی اللہ عنہا اور بعض دیگر صحابہ کرام سے مشاورت فرمائی۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ایسا مشورہ دیاجس سے آپﷺکا غم ہلکا ہو سکتا تھا،جبکہ حضرت عمر،زینب،بریرہ اور دوسرے بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طہارت و پاکیزگی اور رفعت کی شہادت دی۔حضرت عمررضی اللہ عنہ کے مشورے کے بارے میں ایک پرلطف گفتگو بھی مروی ہے،گو اس کی سند مجروح ہے۔اس روایت کے مطابق رسول اللہﷺنے حضرت عمررضی اللہ عنہ سے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے حضرت عائشہ کی پاکیزگی اور عفت کا پرزور اثبات کیا اور جب آپ علیہ السلام نے ان سے اس رائے کی دلیل مانگی تو انہوں نے آپ علیہ السلام کو یاد دلایا کہ ایک مرتبہ آپ علیہ السلام مسلمانوں کو نماز پڑھا رہے تھے کہ نماز کے دوران ہی آپ نے اپنے جوتے اتار دیئے اور جب آپ علیہ السلام سے نماز کے دوران جوتے اتارنے کی وجہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپﷺنے جواب میں ارشاد فرمایا: ‘‘جبرائیل علیہ السلام نے جوتوں پر گندگی لگنے کے بارے میں مجھے بتایا ہے۔’’لہٰذا جب اللہ تعالیٰ رسول اللہﷺ کے جوتے پر لگی ہوئی نجاست کے بارے میں آپ کو بتا دیتے تھے تو یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ آپﷺکی زوجہ محترمہ کو لاحق ہونے والی گندگی کے بارے میں آپﷺ کو نہ بتاتے؟’’ اگرچہ اصل روایت جرح و تعدیل کے اصولوں پر پوری نہیں اترتی،لیکن اس سے حاصل ہونے والے نتیجے پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔

۲۔ غزوہ بدر کے موقع پر رسول اللہﷺنے انصار اور مہاجرین سے مشورہ طلب کیا،جس کے جواب میں مہاجرین کی طرف سے حضرت مقداد رضی اللہ عنہ نے اور انصار کی طرف سے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺکی رائے کی تائید میں ایک دوسرے سے ملتی جلتی گفتگو کی جو ایمان،جوش اور اطاعت کے جذبے سے لبریز تھی۔ان دونوں حضرات نے اپنی اپنی جماعتوں کو طے شدہ فیصلوں کی حمایت اور ان پر عملدرآمد کرنے کے لیے کہا۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺعام لوگوں کو بھی حیات افروز فیصلے کرنے کا موقع دیتے اور اس طرح اجتماعی ضمیر کو اپنا ہمنوا بنا لیتے ۔

۳۔ غزوہ بدر کے موقع پر آپﷺ نے خباب بن منذر اور دیگر صحابہ کرام سے مسلمانوں کے لشکر کے پڑاؤ اور دشمن سے مقابلے کی جگہ کے تعین کے بارے میں مشاورت کی اور مسلمان لشکر کی تجویز کردہ رائے پر عمل درآمد کرایا،جس کے نتیجے میں آپ کو اپنے سے تین یا چار گنا بڑے دشمن کے لشکر پر ایک ہی حملے میں کامیابی نصیب ہوئی اور آپﷺ فتح کے ترانوں کے ساتھ مدینہ منورہ لوٹے۔

۴۔ غزوہ احزاب کے موقع پر بھی آپﷺنے صحابہ کرام سے مشاورت فرمائی اور مدینہ منورہ میں دشمن کے داخلے کے ممکنہ راستوں پر خندق کھودنے کی حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی تجویز کو پسند فرمایا۔یہ واقعہ بھی رسول اللہﷺکی نظر میں شوریٰ کی اہمیت کی ایک مثال ہے۔

۵۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر آپﷺنے مشاورت کا خصوصی اہتمام فرمایا۔ آپﷺ نے بہت سے صحابہ کرام کی رائے معلوم کرنے کے بعد ام المؤمنین حضرت امِ سلمہ رضی اللہ عنہا سے بھی مشورہ کیا اور پھر اپنے ذاتی رجحانات سے میل کھانے والی آراء و افکار کے مطابق اپنی حکمت عملی وضع فرمائی،جس کے نتیجے میں آپﷺ نے ایک ناگزیر شکست کو مدینہ منورہ لوٹ کر فتح مبین میں بدل دیا۔

آپﷺ کی حیات طیبہ کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جس معاملے اور مشکل کے بارے میں وحی نازل نہ ہوئی ہوتی آپﷺ اس کے بارے میں مشاورت فرماتے اور اسے اجتماعی ضمیر کے سامنے پیش کرنے کے بعد اس پر عملدرآمد فرماتے۔مختلف اسلامی ممالک میں قائم مجالس شوریٰ اسی پہلی مجلس شوریٰ کی پھیلی ہوئی صورتیں ہیں۔