نشانات راہ کی تلاش میں

جب سے ہم زمین کی وراثت سے محروم ہوئے ہیں اسلام اپنے پیروکاروں کے ضعف اور اپنے دشمنوں کی طرف سے ظلم و تعدّی کی ایسی صورت حال میں گرفتار ہوا ہے کہ اس پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ مخالفین دھوکادہی اور ظلم و استبداد کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں،لیکن مسلمانوں کا جرم ضعیفی بھی ناقابل برداشت ہے۔شاید اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول اللہﷺنے گناہ گار کی طاقت اور پرہیزگار کی ضعیفی سے خدا کی پناہ مانگی ہے۔

یہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اسلامی فکر و فراست کے تزلزل،تاخیر و جمود، گدلاہٹ اور گہنا جانے نے مسلمانوں کو قرآنی ہدف اور نبوی فلک کے حامل جادہ مستقیم سے دور کر دیا، اسلام کی آفاقیت پر تاریکی کا پردہ ڈال دیا اور عالمی دین کے فریضے کی ادائیگی کو روک دیا۔یہ بات بالکل واضح ہے کہ گزشتہ چند صدیوں سے مسلمانوں میں بالعموم اور مسلمان راہنماؤں میں بالخصوص دیکھے جانے والے اس قدر قرارپذیر اور کہنہ انحراف کا ازالہ چند ایک اسکول کھولنے، کچھ کانفرنسیں اور سیمینار منعقد کرانے یا بے جان سی وعظ و نصیحت کرنے سے ہرگز نہ ہو گا۔

اس کہنہ انحراف جس کی جڑیں ماضی تک پھیلی ہوئی ہیں اور جسے سائنس و ٹیکنالوجی کی حمایت حاصل ہے کے ازالے کے لیے ہمیں اپنے آپ کو نئے سرے سے پانے،اپنی شخصیت کو پہچاننے،اسلامی شعور،اسلامی طرزِ فکر اورعقلی محاکمے{qluetip title=[(۶)]}(۶) اس کتاب میں محاکمہ کا لفظ جہاں بھی استعمال ہوا ہے اس سے عقلی اور منطقی محاکمہ مراد ہے کہ جس میں صورتحال کی تنقیح،دلائل کی جانچ پرکھ،قیاس کا اجراء اور نتائج کے اخذ کے لیے استنباط کے عمل کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔(عربی مترجم){/qluetip}کے طریقِ کار کو جاننے،دیرپا جذبے، مضبوط عزم،کافی وقت،نہ ختم ہونے والے صبر، حیات بخش امید، مضبوط ارادے اور ٹھہرٹھہر کر بڑی احتیاط سے کام کرنے کی ضرورت ہے،لیکن اس کے برعکس اگر ہم نے اپنا ذاتی طریقِ کار دریافت نہ کیا اور جس گڑھے میں ہم گرے ہیں اس سے باہر نکلنے کے راستوں کی تلاش میں غیرمناسب اقدامات ہی اٹھاتے رہے تو یہ نہ صرف اپنے آپ کو دھوکا دینے بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کو تباہی کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہوگا۔

لہٰذا کائنات اور واقعات کو اسلامی پسِ منظر میں دیکھنے اور تمام اشیاء کو اسلامی معیار کے مطابق پرکھنے کے لیے اسلامی فکر و تصور کا احیاء ناگزیر ہے۔اس مقصد کے لیے درج ذیل اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے:

اول: کائنات،انسان اورزندگی کو ایسی مبنی برحقیقت اور درست معلومات کی بنیاد پر محسوس کرنا اور سمجھنا جو اصول و مقاصد کے لحاظ سے مستحکم بنیادوں پر استوار ہوں اور ایک دوسرے سے اتنی ہم آہنگ ہوں کہ یوں لگے جیسے وہ ایک مخصوص تأثر کے اظہار کے لیے مختلف آوازوں پر مشتمل ایک ہی اسلوب میں ڈھلی ہوئی پرترنم لے ہے یا ایسے مختلف نقوش میں گھرا ہوا ایک مرکزی نقش ہے،جن کا معنوی تعلق انہیں مرکز کی طرف کھینچتا ہے۔

دوم: عقل اور محاکمہ ہمارے مطالعے میں آنے والی تمام اشیاء اور واقعات کے کلی اسباب کی طرف راہنمائی کریں اور ان میں پنہاں معانی،مشمولات اور ان بے شمار حکمتوں کو آشکار کریں،جو حکمت سے لبریز منظوم کتاب یا ایسے فنی شاہکار کی مانند ہیں جو قدرت الہٰیہ کی کرشمہ سازیوں کے لاکھوں رنگوں کو منعکس کر کے آنکھوں کو اپنی چمک دمک سے خیرہ کر دیتا ہے،نیز عقل اور محاکمہ کو یہ فریضہ ایسی روشن بصیرت سے ادا کرنا چاہیے کہ جس کے ذریعے وہ جزئی حوادث سے دھوکا کھائے بغیر جزئیات کے ذریعے کلیات سے بھی ماوراء دیکھ سکیں،اپنی کوششوں،افکار اور ادوار کو باہمی تضاد و تناقض سے محفوظ رکھنے کے لیے ہمیں کلیات کے ضمن میں زیادہ سے زیادہ جزئیات کا احاطہ کرنا چاہیے۔

تاہم اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہم شعبہ جاتی اختصاص کے حق میں نہیں ہیں۔آدمی کا کسی ایک شعبے میں اختصاص حاصل کرکے اس میں اعلیٰ ترین کمال اور مقام حاصل کرنا اچھی بات ہے،لیکن اس سعی و کاوش کے دوران وسیع تر دائرے میں اس علم کی مشمولات اور مقصدوغایت پر بھی توجہ دینی چاہیے۔یہ مقصد مشترکہ شعور، علم وفہم، منظم و ہمہ جہت کام اور عقلمندی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ حاصل یہ کہ ہمیں کلی اور ہمہ گیر بصیرت کا مظاہرہ کرنے اور عمومی اور بامقصد جائزہ لینے کی شدید ضرورت ہے۔

آج ہمیں ایسی بامقصد قوت ادراک کی ضرورت ہے جو ماضی و حال کو بیک وقت پیشِ نظر رکھتی ہو،کائنات،انسان اور زندگی پر بیک وقت غوروفکر کی صلاحیت رکھتی ہو،قیاس و موازنہ کرنے کی اہلیت کی حامل ہو،موجودات کے وجود کے اسباب و علتوں کے ابعاد سے واقف ہو،اقوام عالم کے عروج و زوال کے اسباب سے باخبر ہو، عمرانیات اور علم نفسیات کے صحیح اور غلط پہلوؤں کے بارے میں فیصلہ کرنے میں ثالث بن سکتی ہو،تہذیبوں کے مختلف حالات مثلاً عروج و زوال اور فنا پر گہری نظر رکھتی ہو، مقصد اور ذریعے میں فرق کرنے کی اہلیت رکھتی ہو، صحیح وجدان اور درست فکر کی مالک ہو،مقصد کا احترام کرتی ہو،شریعت کی حکمتوں اور مقاصد سے واقف ہو،دینی احکام کے اصول و مبادی سے باخبر ہو اور فیوض الہٰیہ کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔

ہمارے بانجھ فکری نظام کے سامنے نئے آفاق کھولنے کا فریضہ سرانجام دینے والے اہل ادراک لوگ ہی تجدیدی اقدامات میں ہماری مدد کرتے اور ہمیں ابدی و دائمی اصولوں کی تعلیم دیتے ہیں۔ یہ لوگ آسمانی تعلیمات سے محروم اعلیٰ درجے کے عقلی محاکمے میں ہماری بے بضاعتی کو قرآنی فلک میں گھمانے میں مشغول کر دیتے ہیں، لیکن اس دوران کائنات،انسان اور زندگی کے درمیان پائے جانے والے پراسرار تعلق سے غافل نہیں ہوتے اور دین کا ایسا نمونہ پیش کرتے ہیں،جو ذوق و شوق کے ساتھ احکام کے احیاء و قیام کو روبعمل لاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ دائمی اصولوں میں سے ایک اہم اصول آسانی،اتفاق اور تسامح کے سلسلے میں صاحبِ شریعتﷺ کے فکری آفاق کے ساتھ ہم آہنگی کے اصول کی بھی رعایت کرتے ہیں،یہاں تک کہ بشارتیں دینا اور منافرت روکنا،اسلام کی علمی و فکری قوت کی برتری کو تسلیم کرکے صدیوں کے پرانے بانجھ پن کو ختم کرنا،ہر اسکول،عبادت گاہ، شاہراہ اور گھر کو کائنات،زندگی اور انسان میں پنہاں حقیقت پر نگاہ رکھنے والی رصدگاہ میں تبدیل کرنا، صدیوں سے بیکار پڑی فکر ی صلاحیتوں کو لانہایت میں غور کرنے کے لئے بروئے کار لانا،غوروفکر کے معاملے میں اور زندگی کے ہر شعبے کے بارے میں اسلامی اصولوں کو ہمیشہ مقدم رکھنا اور تناسب علت اور ریاضیاتی ومنطقی اصولوں کے سبب و نتیجہ کے بارے میں حساس مزاجی کو حکم مقرر کرنا ان کا شعار بن جاتا ہے۔یہی لوگ احیائے نو کے سلسلے میں ہماری مدد کرتے اور ہمیں دائمی وابدی وجود کے اصولو ں کی تعلیم دیتے ہیں۔

بعض لوگ اسباب کے اس قدر اہتمام کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ کسی حد تک مجھے بھی ان کی رائے سے اتفاق ہے،تاہم انسان کو چاہیے کہ اپنا فریضہ اور ذمہ داری ادا کرتا رہے اور رب کے کاموں میں دخل اندازی نہ کرے۔فریضہ کی ادائیگی ہماری ذمہ داری ہے۔اسباب اختیار کرنا حق تعالیٰ سے دعا مانگنے کی طرح ہی ہے۔اس پہلو سے اس بات کو تسلیم کرنا جلیل القدر خدائی صفات اور ہمارے مخلوق اور اس کے خالق ہونے کے لوازم میں سے ہے۔اس مسئلے کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف منسوب ایک اعتباری شے{qluetip title=[(۷)]}(۷) مصنف کی مراد انسان کی طرف منسوب جزئی ارادے سے ہے،جو امراعتباری ہونے کی وجہ سے ذہن سے باہر کوئی وجود نہیں رکھتا۔(عربی مترجم){/qluetip} کو اپنے ارادے اور مشیت کے موجب کی حیثیت سے قبول کرنے کا حکم دے کر اس کی اہمیت کو اجاگر کیا اور اس خاکے کی بنیاد پر بڑے بڑے کاموں کو وقوع پذیر کرنے کا نہ صرف وعدہ فرمایا،بلکہ انہیں حقیقت کا روپ دھار کر دکھایا۔۔۔اللہ تعالیٰ نے اس اعتباری شے کو گناہ و ثواب کا وسیلہ بنا کر نہ صرف جزا و سزا کی بنیاد قرار دیا ہے،بلکہ خیر و شر کے فاعل کی حیثیت سے اسے تسلیم بھی کیا ہے۔۔۔اگرچہ اس اعتباری شے کی ذاتی کوئی قدر وقیمت نہیں ہے،لیکن اس کے باوجود اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس پر مرتب ہونے والے نتائج کی بنا پر اسے بہت زیادہ قدرومنزلت کی حامل بنایا ہے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو زندگی کا پہیہ بالکل رک جاتا،انسان جمادات کے مقام تک جا گرتا،مکلف ہونے کی حیثیت ختم ہو جاتی اور ہر چیز اپنا مقصد کھو بیٹھتی۔لہٰذا اس پہلو پر توجہ دینا اور اس کے تقاضوں کی رعایت کرنا ناگزیر ہے۔اللہ تعالیٰ اسے دنیا و آخرت کی آبادکاری کی قدرتی شرط قرار دے کر اپنی پُراسرار قدرت کے ایک مخفی پہلو سے پردہ اٹھاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اسے بجلی کے اس طلسماتی بٹن کی مانند بنایا ہے،جو سارے جہاں کو منور کر کے قطرے سے سمندر، ذرے سے آفتاب اور عدم سے جہاں کو وجود میں لے آتا ہے۔

اسباب یا کسی بھی چیز کا حکم اللہ تعالیٰ پر جاری نہیں ہوتا۔اللہ تعالیٰ کے ارادے اور مشیت کو کسی چیز کا پابند نہیں بنایا جا سکتا۔ہر چیز پر اللہ تعالیٰ کا حکم چلتا ہے۔اللہ تعالیٰ یکتا اور علی الاطلاق حاکم ہیں۔اسباب کی رعایت اور علتوں کو چھوٹے چھوٹے اسباب قرار دینا اذن خداوندی ہی کی وجہ سے ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ فطری شریعت جسے ‘‘سنت اللہ’’بھی کہتے ہیں کی مخالفت کرنے کی صورت میں انسان کو سزا کا سامنا کرنا پڑے گا،جس کا بیشتر حصہ تو اسے دنیا میں ہی بھگتنا ہو گا اور کچھ سزا آخرت میں ملے گی۔

جب خلیفہ عادل حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے وبا کے شکار شہر میں داخل نہ ہونے کو تسلیم و رضا کے خلاف سمجھا گیا تو انہوں نے کتنی خوبصورت بات ارشاد فرمائی: ‘‘ہم اللہ تعالیٰ کی ایک تقدیر سے اس کی دوسری تقدیر کی طرف بھاگ رہے ہیں۔’’{qluetip title=[(۸)]}(۸) البخاری،الطب،۳۰؛ مسلم، السلام،۹۸{/qluetip}

قاعدہ یہ ہے کہ جدوجہد اور حرکت و عمل کے پروگرام کو نتائج کے مطابق ترتیب دینا، انہیں اپنی آرزوؤں کا منتہا بنانا اور ان کے بوجھ تلے دب جانا قلق و اضطراب کا باعث بنتا ہے اور نعوذباللہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی تعظیم بجا لانے سے دور کر دیتا ہے۔یہ بات تو اللہ تعالیٰ سے بھاؤ تاؤ کرنے کے مترادف ہے، نیز ارادے اور اختیار سے کام نہ لینا اور مروجہ اصولوں سے ناآشنا بن کر دنیا میں خارق عادت طور پر نتائج کے مرتب ہونے کے انتظار میں بیٹھے رہنا بھی خوابوں اور ذلت پر قناعت کرنے کے مترادف ہے۔کیا قرآن کریم ہمیں ﴿جَزَاء بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ﴾ [السجدۃ:۱۷](یہ ان اعمال کا صلہ ہے جو وہ کرتے تھے۔) اور﴿جَزَاء بِمَا کَانُواْ یَکْسِبُونَ﴾ [التوبۃ:۸۲](یہ ان اعمال کا صلہ ہے جو وہ کرتے رہے ہیں۔)کہہ کر باربار ڈراتا نہیں ہے؟انسان کو جو بھی بھلائی یا برائی پہنچتی ہے وہ اس کے عمل اوربرتاؤ کانتیجہ ہوتا ہے۔دل و دماغ اور وجدان میں توازن قائم کرنے کا اعلیٰ ترین نمونہ پیش کرنے والے فخرانسانیت اور سیدالأنام ﷺ یہ فرما کر ہمیں سبب اور نتیجے،علت ومعلول اور سعی و ثمرے میں پائے جانے والے مضبوط تعلق اور مخفی تناسب کی تعلیم دیتے ہیں: ‘‘قیامت کے دن ابن آدم کے قدم اپنے پروردگار کے پاس سے اس وقت تک نہ ہٹ پائیں گے،جب تک اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں نہ پوچھ لیا جائے گا: عمر کس شغل میں گزاری؟ جوانی کس مشغلے میں گنوائی، مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا اور اپنے علم پر کتنا عمل کیا۔’’{qluetip title=[(۹)]}(۹) الترمذی،صفۃ القیامۃ،۱{/qluetip}

اسلام جہاں کتاب و سنت کی روشنی میں مؤمن کی دنیا و آخرت کی زندگی، اعتقاد و عمل کی حالت اور عبادت و اخلاق کی کیفیت کو منظم کرتا ہے،وہیں فاصلوں کی طرف بڑھتے ہوئے عالم کی بعض دوسری اشیاء کی سطور کے ذریعے انسان کی روحانی، عقلی، قلبی،وجدانی اور حسی دنیا کے کان میں سرگوشی کرکے اس کے من کی گہرائیوں میں اُخروی احساسات اور لاہوتی جذبات کو جنم دیتا ہے، تاکہ وہ ہر آن ایک نئے بعد میں جیئے،اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی خلافت کے منصب، اشیاء کی ماہیت جاننے کی حالت اور سنت اللہ کے اسرار کی فہم و جستجو کے مقام پر پائے اور پھر یوں محسوس کرے جیسے ارادہ و مشیت الہیہ کے سرچشمے سے پھوٹنے والی کتاب فطرت اور کلام الہی کے سرچشمے سے نکلنے والی اس کی وضاحت و توضیح ایک ہی حقیقت کے دو رخ ہیں ... نیز اپنی فکروتصور،اپنی زندگی اور کردار اور اپنی دنیوی و اخروی آراء کے درمیان ایسا ہی توازن قائم کرے جیسا توازن زمین و آسمان کے درمیان موجود ہے۔

اسلام نے اپنے کپڑے کے اہم عناصر کو عقل،وجدان،روح اور جسم کے سامنے پیش کیا اور دنیوی و اخروی ابعاد اور گہرائی کے حامل اس خوشنما کپڑے کو بُنا۔ اگر کبھی ان میں سے کوئی ایک دوسرے پر مقدم ہو گیا تو ان میں سے کسی ایک کے لئے اکیلے اسلام کی تصویر پیش کرنا یا اس کی نمائندگی کرنا ممکن نہ رہا۔

ممکن ہے کہ خالق کی طرف سے ساری مخلوق کے لیے اہم ترین عطیہ دین اسلام اللہ تعالیٰ کے ابتدائی احسان کی بدولت ایک پرجوش منظوم کلام میں تبدیل ہو جائے۔وہ احسان عقل،وجدان،روح،جسم اور لطائف پرمشتمل ساری کائنات کی معنوی فہرست ہے۔ اس مسئلے کی مزیدوضاحت اپنے موقع پر آئے گی۔