حرکتِ عمل اور فکر

زمین کے وارث ہونے کی حیثیت سے ہماری جدوجہد کا خلاصہ دو لفظوں حرکتِ عمل (Dynamism) اور فکر میں بیان کیا جا سکتا ہے۔درحقیقت ہمارا وجود حرکت عمل اور فکر سے گزرتا ہے۔حرکت عمل اور فکر ہی انسان کی اپنی شخصیت اور دوسروں میں تبدیلی لاتی ہے۔ایک دوسری جہت سے دیکھیں تو ساری کائنات حرکت اور مختلف نظاموں کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے اور اس کی بقا حرکت اور ان نظاموں پر موقوف ہے۔

ہماری زندگی کی اہم ترین ضرورت حرکتِ عمل ہے۔ہمیں نامساعد حالات میں بھی ہمیشہ متحرک رہتے ہوئے اپنے آپ پر نامساعد حالات کا بوجھ ڈالنا چاہیے تاکہ ہم اپنے کندھوں پر ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھا سکیں اور اپنے سینوں کو مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے کھول سکیں۔مستقل حرکتِ عمل اور غوروفکر کی خاطر ہمیں اپنی ہر چیز قربان کر دینی چاہیے۔اگر ہم آمادہ بحرکت نہ رہیں گے تو ہم دوسروں کے حملوں کی موجوں اور ان کی تحریکی کاوشوں کے فکری بھنور میں پھنس کر انہی کی بعض حرکات کی نقالی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

دائمی سکون اپنے گردوپیش میں رونما ہونے والے واقعات سے بے اعتنائی برتنے،ارد گرد ہونے والی نئی تشکیلات میں عدم شرکت اور پانی میں گری ہوئی برف کی طرح اپنی شخصیت کے پگھلنے کو قبول کرنے کے مترادف ہے۔اپنی شخصیت کے عناصر کو یوں گھلنے سے نہ بچا سکنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی ذات اور حقیقت سے متصادم کسی بھی واقعے اور چیز کو تسلیم کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔اپنی شخصیت کی بقا کے لیے پرعزم لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنی تمام ترخواہشات، رجحانات،قلب و وجدان اور حرکات و اعمال کے ذریعے اس کی جستجو کریں،کیونکہ وجود کی حاضری انسانی جوہر میں مکمل تناؤ کا تقاضا کرتی ہے۔بلاشبہ پہلے وجود اور پھر وجود کا استمرار انسانی بازو،دل اورسر کا تقاضا کرتا ہے۔اگر ہم نے مستقبل میں اپنے وجود کی خاطر آج اپنے دلوں اور سروں کو قربان نہ کیا تو دوسرے لوگ بڑی ڈھٹائی سے ایسی جگہ اور وقت میں ہم سے ان کا مطالبہ کریں گے،جب اس میں ہمارا کوئی فائدہ نہ ہو گا۔

اسلامی حرکت عمل اور فکر کی اہم ترین صورت یہ ہے کہ ہمارا وجود ہماری شخصیت بن جائے اور ہم اپنی ضروریات کو جہان کی ضروریات اور خواہشات کے مطابق بنالیں،اپنی حرکت کی رفتار کو کائنات میں محسوس کریں اور اپنے مخصوص دھارے میں اپنی ذات کے ساتھ کائنات کی دوسری اشیا کے ضمن میں بہیں۔(اس کا مطلب یہ ہے کہ ساری کائنات کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کر کے ہی ہم اپنے مخصوص راستے کی حفاظت کر سکیں گے۔)جو شخص اپنی مخصوص دنیا کو عمومی وجود سے مربوط کرتا ہے اور نہ ہی کائنات کے ساتھ اپنے تعلقات کی نوعیت کو سمجھتا ہے،بلکہ کائنات کے عمومی حقائق کے ساتھ اپنی جزئی اور انفرادی ضروریات کو مربوط کرنے سے باز رہتا ہے وہ ساری کائنات کے ساتھ اپنی شخصیت کے تعلقات کو کاٹ کر اسے مہلک انا پرستی کا اسیر بنا دیتا ہے۔بلاشبہ انسان کے کائنات سے کٹ کر تنہا ہونے کا سبب جسمانی خواہشات اور بدن میں برپا کشمکش ہے۔ہر بے مقصد اور وہمی دلاسے کی جڑیں جسمانی خواہشات اور بدنی کشمکش سے جا ملتی ہیں۔

حرکت عمل اور حقیقی فکر کے مالک شخص کی دنیا اور دنیوی سعادت عالمگیریت اور سرمدیت کے اوصاف سے متصف ہوتی ہے،دوسرے لفظوں میں اس کی دنیا کی ابتدا یا انتہا نہیں ہوتی،بلکہ وہ ہمارے تصور سے ماورا ہوتی ہے۔‘‘انسانِ سعید’’ سے ہمارے ذہنوں میں ایسے ہی افراد کا خیال آتا ہے۔درحقیقت حقیقی سعادت وہی ہوتی ہے جس کی ابتدا یا انتہا نہ ہو۔

زیادہ درست نقطہ نظر سے دیکھیں تو حرکت عمل انسان کے پورے صدق و اخلاص کے ساتھ ساتھ کائنات کو اپنی آغوش میں لینے،اس میں غوروفکر کرنے،اپنی ذات میں موجود کشتیوں کے ذریعے لانہایت کی طرف سفر جاری رکنے اور پھرلامتناہی سے حاصل کردہ راز اور قوت کے ذریعے اپنے تمام ذہن اور ارادے کی ساری طاقت استعمال کرتے ہوئے اپنی دنیا کو تخلیق کے حقیقی مقصد کے فلک میں ڈال دینے سے عبارت ہے۔

باطنی فکر حرکتِ عمل ہے۔پرسکون اور منظم فکر خود کائنات سے کائنات کے اُن نامعلوم پہلوؤں کے بارے میں پوچھنے اور اس کے جواب کو غور سے سننے سے عبارت ہے،جن کا ہمیں کائنات میں سامنا کرنا پڑتا ہے۔دوسرے لفظوں میں یہ انسانی شخصیت اور باقی کائنات کے درمیان قرب پیدا کر کے ہر جگہ اور ہر چیز کی زبانِ حال سے حقیقت کو تلاش کرنے والے شعور کی صلاحیت کار کا نام ہے۔

انسانی روح کا جہان کے ساتھ تعامل فکر کے ذریعے اور اس کی روشنی میں ہوتا ہے۔انسان اپنی ذات میں اور اپنے نفس کے باطن میں گہرائی سے مسلسل غوروفکر کرتا رہتا ہے اور باہر نکلنے اور روح کی گہرائیوں تک راہ پالینے والے اوہام سے چھٹکارا پانے کے لیے عقل معاش کے تنگ سانچوں کو توڑ دیتا ہے،جس کے نتیجے میں اس کی ان حقائق کے ساتھ ہم آہنگی پیدا ہو جاتی ہے، جن میں کوئی کجی یاگمراہی پیدا نہیں ہو سکتی۔دوسرے لفظوں میں غوروفکر انسانی ذات کی اندرونی گہرائیوں میں مابعد الطبیعاتی تجربات کی جگہ بنانے کے لیے انسان کے باطن میں جگہ فارغ کرنے سے عبارت ہے۔یہ فکر کا پہلا درجہ ہے،جبکہ اس سیڑھی کا آخری زینہ متحرک فکر ہے ۔

ہماری دعوتی و فکری زندگی کی حرکت عمل ہماری روحانی زندگی ہے،جبکہ روحانی پہلو ہماری دینی فکر کا جزولاینفک ہے۔خاص طور پر ہماری قوم نے اپنے وجود کی جنگ اسلامی جذبے اور حقائق کے سائے میں پناہ لے کر ہی جیتی ہے اور جب بھی وہ اسلام کی طرف متوجہ ہوئی اپنی شخصیت میں پنہاں گہرائیوں کی بدولت ممتاز رہی،جس طرح بیج زمین کے سینے میں جا کر مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے خوشے کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور شگوفہ روشنی پڑنے پر چٹخ کر پھول بن جاتا ہے۔یہ التفات اور شخصیت کا وصال اس کی حقیقت میں پنہاں مخفی امکانات میں مزید وسعت پیدا کرتا اور اس کے وجود و بقا کی ضمانت فراہم کرتا ہے اور جس طرح عبادت اور ذکروفکر کے ذریعے قلب و روح کی روحانی زندگی میں رفعت پیدا ہوتی ہے،اسی طرح اس کا ساری کائنات کو اپنی آغوش میں لینا،اپنی نبض کے چلنے میں اسے سننا اور عقل کے ہر کلیے میں اسے محسوس کرنا عبادت کے شعور اور ذکروفکر کے مجاہدے کے ساتھ مربوط ہوتا ہے۔یہ بات واضح ہے کہ حقیقی مؤمن کا ہر کام عبادت،ہر فکر مراقبہ،ہر کلام مناجات اور معرفت کی رزمگاہ،کائنات کا ہر مشاہدہ چھان پھٹک اور نگاہِ شوق اور اپنے ہم وطنوں کے ساتھ رحمت وشفقت پر مبنی تعلق ہوتا ہے۔

رحمانیت کے اس معیار کا حصول کشادہ دلی،محاکمہ و فراست پر اور پھر محاکمہ و فراست سے الہام کی طرف منتقل ہونے پر موقوف ہے۔دوسرے لفظوں میں جب تک تجربے کو عقل کی بھٹی سے نہ گزارا جائے،عقل کو فراست عظمیٰ کی کسوٹی پر نہ پرکھا جائے،منطق پر محبت کا رنگ نہ چڑھے اور محبت عشق الٰہی میں نہ بدلے اس وقت تک اس عظیم مرتبے تک پہنچنا ممکن نہیں۔اگر یہ بات حاصل ہو جائے تو سائنس دین کا ایک پہلو اور اس کی خادمہ بن جائے،عقل ایک ایسا نورانی خیال بن جائے،جس کی مدد سے الہام جہاں چاہے پہنچ جائے اور تجرباتی علوم کائنات کی روح کا پرتو ڈالنے والے منشور (Prims) کی مانند ہو جائیں اور ہر چیز معرفت و محبت اور روحانی ذوق کے ترانے گانے لگے۔

اگرچہ آج کا انسان اور بعض جماعتیں ایسے ہی خیالات و افکار کی حامل اور بالکل ایسی ہی نفسیاتی کیفیت میں شریک ہیں،لیکن اس کے باوجود وہ حسبِ منشا مثبت کردار ادا نہیں کرتیں اور اتنے وسیع اور مشترکہ رابطوں کے باوجود بسااوقات راہِ راست سے بھٹک کر منفی پہلوؤں کو اختیار کر لیتی ہیں۔انہیں حقیقی ایمان کے نہ پائے جانے کا سبب تلاش کرنا چاہیے۔حقیقی مؤمن جیسی بھی صورتحال میں گھرا ہوا ہو اور اسے کسی بھی طرح کی مشکلات کا سامنا ہو اس کے تصرفات پر ایمان کا رنگ چڑھا ہوتا ہے اور اس کی ہر حرکت ہمیشہ فکر کے مدار میں گھومتی ہے۔

لہٰذا نئے مستقبل کی تعمیر کی منصوبہ سازی کرنے والے زمین کے وارثوں کو تعمیر اور اس میں استعمال ہونے والے تعمیری سامان کی نوعیت کو سمجھنا چاہیے،تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اپنے ہاتھوں سے بنائی ہوئی تعمیر کو خود ہی ڈھانے لگیں۔ہماری ہزارسالہ زندگی کی جڑیں اور اصول معروف اورمشہورہیں۔روشن مستقبل کے معماروں کو چاہیے کہ اپنی فکری طاقت اور جذبات کو تحریک دینے والے عوامل کو بھرپور طریقے سے استعمال کریں،تاکہ وہ تاریخی عوامل جن سے ہم اپنی دینی اور ملی زندگی کو وجود میں لاتے ہیں، ایک بار پھراسلام کی آواز کے سامنے خاموش ہو جائیں،اس کے نقطہ نگاہ کو اختیار کر لیں،اس کی نبض کو محسوس کریں اور اس کی دھڑکن کو سنیں۔ جس حد تک ہو سکے ان عوامل کی تعمیر کو بلند سے بلندتر کرنے کے لیے نرمی،گہرے تسلسل اور عالمگیریت سے استفادہ کریں اور زمانے کی فکری سطح اور اسلوب کے مطابق کتاب و سنت اور سلف صالحین کے پاکیزہ اجتہادات کی حفاظت کو یقینی بنائیں،تاکہ زوال کے بعد نشاۃثانیہ کے راستے میں انہیں برزخی زندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے،لیکن یہ سب کچھ سب سے پہلے ہر قسم کی نفسانی خواہشات و جذبات سے دور رہنے،روحانیت کو قبول کرنے اور دنیا اور اس کے علم کو آخرت کے سفر کے دوران انتظارگاہ کی حیثیت سے دیکھنے پر منحصر ہے۔دوسرے لفظوں میں ہمیں یہ مقصد اپنی عبادات کی کمیت کو کیفیت تک گہرا کرنے اور اوراد و اذکار کی ریاضت کے دوران پیدا ہونے والی کمی کو نیت و خلوص کے لامتناہی آفاق سے پوراکرنے اور ہم سے خود ہم سے بھی زیادہ قریب ذات الہیہ کے حضور دعا و مناجات اور التجاؤں میں اعتماد، یقین اور معرفت کے ذریعے حاصل ہوگا، لیکن یہ حقیقت صرف انہی لوگوں کی سمجھ میں آسکتی ہے جو نماز کے دوران معراج کی کیفیت محسوس کرتے ہیں، جنہیں زکوۃ کی ادائیگی میں امانت کی حفاظت کرنے والے شخص اور تقسیم کنندہ اہلکار کو حاصل ہونے والی لذت محسوس ہوتی ہے اور وہ حج کو عالم اسلام کی مشکلات کو حل کرنے کے لئے منعقدہ ایک عالمی اجلاس سمجھتے اور اس میں قلب و روح کی نورانیت اور جلالت اور دیگر اخروی ابعاد کی جستجو کرتے ہیں۔

ان تمام باتوں کا احساس پیدا ہونا اور پھر اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنا ہماری داخلی و خارجی بدحالی کی صحیح تشخیص و علاج کر سکنے والے روحانی طبیبوں اور اخروی امور کی مسلسل سچی لگن رکھنے والے ایسے پیشواؤں پر موقوف ہے جن کی فکری جولان گاہ میں مادہ،روح،طبیعیات و مابعدالطبیعات اور فلسفہ وتصوّف سب شامل ہوتے ہیں۔آج تک کی تہذیبی ترقی کے پیچھے ایسے ہی حضرات کا ہاتھ رہاہے اور آئندہ بھی ترقی واحیاء کے لئے اٹھنے والی تحریکوں کی قیادت ایسے ہی لوگوں کے ہاتھ میں ہو گی، لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ نئے اورمستقبل میں پیش آنے والے حالات و واقعات کے حل کے لیے کتاب و سنت کے سرچشمے سے نئے قانونی مسائل کا استنباط کریں،اپنے افکار کو دورِجدید کی آراء سے آراستہ کریں،اسلام کی عالمگیریت اور ملت اسلامیہ کی روحانی مرکزیت سے ہم آہنگ فنی معلومات کو ترقی دیں اور پچھلے ایک ہزار سال سے محفوظ چلی آنے والی دین و دنیا پر مشتمل ثقافت میں مزید پختگی پیدا کریں۔اس سطح کی تیاری تھوڑے ہی عرصے میں ہمیں سائنس،فلسفے،فن اور دینی معاملات میں اقوام عالم کی قیادت کرنے،زندگی کی تمام اکائیوں کو اعلیٰ ترین معیار کے مطابق سدھارنے اور عام تعلیم یافتہ اور ان پڑھ لوگوں کو فکری، صنعتی، علمی اور فنی میدانوں میں مستقبل کے ہیرو بننے کے قابل بنا دے گی، جس کے نتیجے میں گلی کوچوں اور شاہراہوں پر بھی علم وعرفان کی بادِنسیم یوں چلنے لگے گی جیسے وہ بھی اسکول کا حصہ ہوں، قیدخانے علمی مراکز میں تبدیل ہو جائیں گے،(علم کے)درخت گھروں کو جنت کا نمونہ بنا دیں گے،دین اور سائنس ہر جگہ ہم رکاب رہیں گے،ایمان اور عقل کی ہم آہنگی کے ہر جگہ ثمرات ظاہر ہوں گے،عزم واُمید کی چشمِ تصور میں مستقبل کے ایسے ایسے خوشنما رنگ دکھائی دیں گے کہ ان کی رعنائی کے سامنے‘‘مثالی شہروں’’کی چمک دمک بھی ماند پڑ جائے گی،ٹیلی ویژن،ریڈیو اور اخبار و رسائل ماحول میں فیوض و برکات اور روشنی پھیلائیں گے اور زمانے سے پیچھے رہ جانے والے لوگوں کے سوا جنت کی اس بہار سے لطف اندوز ہونے والا ہر شخص آب کوثر کو مزے لے لے کر پیئے گا۔

یہ تشکیل جدید ہماری تاریخی اقدار،تہذیب و تمدن اور رومانویت سے وجود میں آئے گی اور یہ تحریک ایک طرف زمانہ دراز سے ظلم و ستم اور فریب کا شکار رہنے والی روحانی حالت سے اور دوسری طرف ایمان سے لبریز اور ہردم مستعد رہنے والے ہمارے دلوں کے ولولوں سے اٹھے گی۔

اس حیات بخش پیغام کا حصول سب سے پہلے زنگ آلود ماحول میں رہنے والی زنگ آلود روحوں میں زندگی کی تحریک پیدا کرنے پر موقوف ہے۔یوں لگتا ہے کہ پچاس ساٹھ سال کی مسلسل جدوجہد نے مشکلات کو دور کرنے میں کسی حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔دکھی شاعر کی آہ و بکا میں ہم بھی شریک ہو کر کہہ سکتے ہیں: ‘‘اے فرہاد! کدال سے ضرب لگاتے رہو۔زیادہ کام ہو گیا ہے تھوڑا کام رہ گیاہے۔’’سب سے پہلے روح میں تحریک پیدا ہوتی ہے۔آج ہم جہاں بھی جائیں وہ ہم پر آسمان کے پرنُور تاجوں پر موجود خوش آمدید کی کمانوں کی مانند سلام سکینت کی نرمی اور بہار کی بدلی کی حرارت بھیجتے ہیں۔وقت آچکا ہے کہ وہ مظلوم ومقہور قوم کے وطن کو اپنی آغوش میں لے کر اس پر اپنی رحمت کی بارش نازل فرمائیں۔

آج طاقت نے حق کی صورت اختیار اور اپنے بیشتر حصے کو خرچ کر چکنے کے بعد حق کی اطاعت قبول کرلی ہے۔بلاشبہ طاقت کے وجود میں بھی حکمت ہے۔ بہت سے مسائل طاقت کے استعمال کے بغیر حل ہو ہی نہیں سکتے۔اگر حق سے جدا اور اس کی مخالف قوت نقصان ہی نقصان ہے تو حق سے متحد قوت سراسر حق ہے۔قوت اور حق کے اتحاد سے حاصل ہونے والی جرأت ظالم کی بجائے مظلوم کا ساتھ دیتی اور حق کی ترجمانی کرتی ہے۔بہرحال فکر اور حرکتِ عمل کے سپاہیوں کو ہمیشہ حق کی نمائندگی کرنی چاہیے۔

ان شاء اللہ آئندہ مضمون میں میں عالم اسلام میں حرکتِ عمل کے سپاہیوں کے موضوع پر گفتگو کروں گا۔