تواضع کے ساتھ کمال کی تلاش

تواضع کے ساتھ کمال کی تلاش

سوال: آپ نے ذکر فرمایا کہ مومن کو اپنے ارادے کا حق ادا کرنا چاہیے اور ہمیشہ کمال تک پہنچنے کے لیے سعی کرنی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے تواضع کی پابندی اور نفس کے محاسبے کی جانب بھی اشارہ فرمایا خواہ انسان کتنا ہی خوش قسمت اور کامیاب ہوجائے۔ ان دونوں باتوں کو کیسے یکجا کیا جاسکتا ہے؟

جواب: حقیقی مومن عزم و ارادے کا مالک ہوتا ہے۔اللہ پر یقین کے ساتھ ایمان رکھتا ہے اور سخت ترین حوادث میں بھی امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ جب اس کے سامنے کوئی بھی رستہ نہیں رہ جاتا تو بھی وہ ناامیدی کا شکار نہیں ہوتا بلکہ ثابت قدم رہتا ہے اور اس کے بعد اپنی ترقی کے رستے میں حائل مشکلات کے اندر سے کوئی درمیانی رستہ نکال لیتا ہے اور اپنے ہدف کی جانب سفر جاری رکھتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ حق سبحانہ وتعالیٰ اپنے رستے پر چلنے والوں کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑتا۔ مثال کے طوپر جب آپ علیہ السلام پر حالات تنگ ہوگئے اور مکہ میں زندگی اجیرن ہوگئی تواللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو ملاء اعلیٰ کی سیر کرائی جہاں ہر منزل پر آپ علیہ السلام کو انبیائے سابقین علیہم السلام میں سے کوئی نبی سلام کرتا تھا یہاں تک کہ ایک مقام ایسا بھی آگیا جہاں امین وحی حضرت جبریل علیہ ا لسلام کہنے لگے: ’’اے محمد آپ کریم کے مہمان اور کریم کے بلائے ہوئے ہیں۔ میں اگر یہاں سے ایک انگلی بھی آگے بڑھا تو جل جاؤں گا۔‘‘ اور ساتھ یہ یہ آیت تلاوت کی: ﴿وَمَا مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقَامٌ مَعْلُومٌ﴾ (الصافات:164) (اور (فرشتے کہتے ہیں) ہم میں سے ہر ایک کا مقام معلوم ہے)

کمال کی طلب اللہ تعالیٰ کے اخلاق کو اپنانے کا تقاضا ہے۔

جی ہاں، اللہ تعالیٰ نے اپنے رستے پرچلنے والوں میں کسی کو بھی کبھی ضائع نہیں فرمایا بلکہ سخت ترین حالات میں ان کی دستگیری فرمائی ہے اوران کو ساحل سلامتی تک پہنچایا ہے۔ اس لیے اگر تم گر جاؤ تو اچانک اوپر سے ایک رسی لٹک جائے گی ، تم اس کو پکڑ لو گے اور اوپر چڑھو گے اور کبھی تم بعض لوگوں کی غیرت ، حسد اور غداری کا شکار ہوجاؤ گے مگر تھوڑے سے روحانی سفر کے بعد تمہیں محسوس ہوگا کہ گویا اللہ تعالیٰ نے تمہیں لوگوں کے دلوں کے تخت پر بٹھا دیا ہے۔ اس لیے ان مومنوں پر لازم ہے جو اللہ تعالیٰ کی معیت ، اس کی عنایت اور صلے کو محسوس کرتے ہیں، وہ ہمیشہ بڑے کام کرنے کا سوچیں خواہ حالات کیسے ہی سخت کیوں نہ ہوں اور ان اعمال کو ان کے مرتبے کے مطابق ادا کرنے کے لیے اپنے ارادے کا حق ادا کریں تاکہ وہ کام کامل ترین اور بہترین شکل میں ظاہر ہوسکیں کیونکہ نبی کریم ﷺ نے اپنے پیروکاروں کو احادیث شریفہ میں اللہ تعالیٰ کے اخلاق کو اپنانے کا حکم فرمایا ہے۔ قرآن کریم کی بعض آیات ان اخلاق کے بارے میں یوں اشارہ کرتی ہیں﴿الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ﴾ (السَّجْدَةِ: 7) (وہی جس نے ہر چیز کو اچھی طرح بنایا) اور ﴿الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ﴾ (سُورَةُ النَّمْلِ: 88) (جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا) مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شے کو خوبصورت ترین، کامل ترین اور بہترین شکل میں پیدا فرمایا ہے جس کی وجہ سے دیکھنے والے یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں: ’’کوئی بھی شے اس س عظیم تر نہیں ہوسکتی ۔‘‘ اس موضوع سے متعلق امام غزالی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’اس سے زیادہ بے مثال کوئی شے ہوہی نہیں سکتی۔‘‘

جی ہاں ، جوبھی شخص کائنات کے اوپر شمولی نظر ڈالے گا اور سبب اور نتیجہ کو دیکھے گا تو اس کے سامنے یہ اعتراف کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے گا کہ : اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو بہترین انداز میں اس طرح پیدا فرمایا ہے کہ اگر مجھے ہزار سال عمر عطا کرے اور اس کا معمولی سا حصہ بنانے کا حکم دیا جائے تو میں ایسا نہ کرسکوں گا۔ اس طرح اخلاق الٰہیہ اس جانب ہماری رہنمائی کرتے ہیں کہ مومن کو اللہ تعالیٰ کے رستے میں سعی کرتے ہوئے اپنی پوری کوشش کرڈالنی چاہیے تاکہ اس کا کام خوبصورت ترین اور مکمل ترین صورت میں سامنے آئے۔

ہرعمل کے ہمراہ یہ بات محسوس کریں کہ اسے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ پیش کیا جائے گا۔

قرآن کریم اس بات کی ضرورت کے بارے میں بتاتا ہے کہ مومن کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کئے جانے والے اعمال میں کمال تک پہنچنے کی کوشش کرے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ وَسَتُرَدُّونَ إِلَى عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ﴾ (التوبہ:105)(اور ان سے کہو کہ عمل کئے جاؤ۔ اللہ اس کا رسول اور مومن سب تمہارے عمل کو دیکھ لیں گے۔ اور تم غائب وحاضر جاننے والے کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ پھر جو کچھ تم کرتے رہے ہو وہ تم کو بتا دے گا) ۔

یہاں ہم دیکھ رہے ہیں کہ قرآن کریم کام کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے ’’افعلوا‘‘ کی بجائے ’’اعملوا‘‘ کا لفظ استعمال کررہا ہے البتہ بعض دیگر آیات نے جس عمل کو ’’عمل صالح‘‘ کا نام دیا ہے وہ ایسا مثبت عمل ہے جس میں کوئی کمی بیشی نہ ہو اور ایک مقررہ منصوبے کے مطابق ادا کیا جاتا ہے۔

دوسری جانب ﴿فَسَيَرَى اللهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ﴾ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ہر عمل کرتے وقت یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے یہ کام اللہ تعالیٰ، رسول اکرمﷺ اورمومنین کے سامنے پیش کیا جائے گا ۔ یعنی مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسا عمل کرے جس سے اللہ راضی ہو، جس پر فخر انسانیت حضرت محمد ﷺ فخر کریں اور مومنین یہ کہتے ہوئے رشک کریں: ’’کاش ہمیں بھی ایسا کام کرنے کی توفیق مل جاتی!‘‘

اسی مناسبت سے میں ایک اور بات کی جانب بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں اگرچہ وہ ہمارے اصل موضوع سے خارج ہے۔ وہ یہ کہ جو مسلمان اپنے کاموں میں کمال کا طالب ہوتا ہے وہ دوسروں کی پسندیدگی یا ان کو اپنے اوپر رشک کرنے کی دعوت دینے کو اپنا ہدف نہیں بناتا بلکہ وہ اپنے مولیٰ کی رضا کی خاطر کام کرتا اور اپنے ارادے کا حق ادلا کرتا ہے جبکہ دوسروں پر رشک کرنے، ان کی مشابہت اختیار کرنے اور ان سے آخرت کی دیگر جمالیات کو حاصل کرنے میں پیچھے نہ رہنے کی کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں مگر اس کے باوجود کسی بات پر حسد اور غیرت کا اظہار کبھی بھی مومن کے شایان شان نہیں۔

فرشتے ہمارے لیے بہترین نمونہ ہیں

قرآن کریم فرشتوں کے بارے میں کہتا ہے: ﴿لَا يَعْصُونَ اللهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ﴾ (التحریم:6)(وہ کسی حکم کی جو اللہ انہیں دیتا ہے نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم ان کو ملتا ہے اسے بجا لاتے ہیں) یعنی اللہ تعالیٰ کے احکام کو بصورت اتم بجا لاتے ہیں اور ان سے انگلی برابر بھی دائیں بائیں نہیں ہوتے۔ اس لیے وہ ہمارے لیے بہترین نمونہ ہیں۔ سو مومن کو چاہیے کہ وہ اپنے عمل میں حضرت جبریل علیہ السلام کے رستے پرچلے تاکہ اس کے اعمال متوازن اور درست رستے پر ہوں اور اسے اللہ کی خوشنودی مل سکے۔ اگر ضرورت کا تقاضا ہو تو اپنی پوری کوشش کرڈالے اور جو اس سے بن پڑے وہ کرڈالے اور اپنے ارادے کا حق ادا کرے اور ا پنی ذمہ داریوں کو پوری طرح بجا لائے کیونکہ ’’جو تلاش اور کوشش کرے، وہ پا لیتا ہے۔‘‘

کامیابی کے ذریعے آزمائش

جو شخص اس قدر کوشش کرے گا، اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اسے عظیم کامیابیاں نصیب فرمائے گا اور ہو سکتا ہے کہ اس شخص کے عظیم کام کے گرد ہزاروں لوگ اکٹھے ہوجائیں، اس کا شکریہ ادا کریں اور اس کی تعریف و توصیف کریں۔ اس وقت اس کا سخت ترین امتحان شروع ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی ان کامیابیوں کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے یا ان کے حقیقی مالک کی جانب؟ کیا ان کامیابیوں سے اس کے اندر شکر کا جذبہ پیدا ہوگا یا اس کا دماغ پھر جائے گا اور ان کی وجہ سے اس کی آنکھیں اندھی ہوجائیں گی؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو لوگ اس سخت امتحان میں کامیاب ہوجائیں گے، یہ وہی لوگ ہوں گے جن کے دل میں تواضع اور ملنساری ہوگی، جنہوں نے ا پنے نفس کی تربیت اور تہذیب کی ہوگی اور جن لوگوں نے ایسے سخت مقام پر اپنی حدود کو جانا ہوگا جس میں انسان ہار جاتا ہے حالانکہ اسے کامیابی کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ پھر جس طرح عمل کے دوران یہ لوگ اپنے ارادے کا حق ادا کرتے ہیں، اسی طرح یہاں بھی اپنے ضمیر کا حق ادا کرتے ہیں اوراس نقطے کو متعین کرتے ہیں جہاں ان کو رکنا ہوتا ہے۔ اس لیے وہ کسی شے کو اپنی جانب منسوب نہیں کرتے بلکہ یوں کہتے ہیں: ’’بنانے والا اللہ ہے، خالق اللہ ہے اور فاعل بھی اللہ ہی ہے۔۔۔۔‘‘ آپ دیکھیں گے وہ غرور اور خود پسندی جیسی کمزوریوں سے اس طرح بھاگتے ہیں جیسے سانپ اور بچھو سے ۔ پھر اسی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ نفس کا محاسبہ کرتے ہوئے اپنے عمل میں کوتاہیوں کو تلاش کرتے ہیں، ان پر غمگین ہوتے ہیں اور ان کو اس بات کا دکھ ہوتا ہے کہ وہ اپنا عمل کامل اور اعلیٰ ترین انداز سے پورا نہیں کرسکے۔

مزید وضاحت کے لیے کہہ سکتے ہیں کہ: عمومی زندگی میں ذمہ داریاں سنبھالنے والے بعض لوگ اپنے اپنے میدانوں میں کئی کامیابیاں حاصل کرسکتے ہیں اور اپنے اعمال پر ایسی خوبصورتی کی مہر ثبت کرتے ہیں کہ ساکنان ملاء اعلیٰ بھی انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں کیونکہ بعض لوگ اپنی زبان سے مہارت کی حد تک پہنچ جاتے ہیں، بعض اپنی تحریروں کے ذریعے، بعض حسن انتظام اور خیالات کے ذریعے اور بعض فنی مہارت کے سبب لیکن حقیقی مومن کوئی بھی کامیابی یا پیش قدمی حاصل کرنے کے بعد کہتا ہے یا اسے کہنا چاہیے کہ : ’’اگر میری جگہ کوئی زیادہ سمجھدار اور وسیع تر سینے کا مالک آدمی ہوتا تووہ زیادہ خوبصورت اور ماہرانہ کام کرسکتا تھا۔‘‘

بلکہ اگر ہم فرض کرلیں کہ وہ اپنی انگلی سے چاند کے دو ٹکڑے اور سورج کا رستہ بدلنے میں کامیاب ہوگیا اور لوگ ایک عظیم حقیقت کے گرد جمع ہونے لگے اور اس نے اپنے اعمال میں حضرت جبریل علیہ السلام جیسی کامیابی حاصل کرلی، تو بھی اس کے وجدان کی آواز یہ ہونی چاہیے: ’’اگر میری جگہ کوئی اور ہوتا تو شاید وہ یہ کام زیادہ اچھے اور درست طریقے سے انجام دیتا اور حقیقت یہ ہے کہ میری کوتاہوں کی وجہ سے یہ عمل اپنے مطلوبہ مقام تک نہیں پہنچ سکا اور کمزور اور ناقص رہ گیا۔‘‘

قیامت اور نفس لوامہ

مومن کا اپنے نفس کو اس حد تک ملامت کرنا کیوں ضروری ہے؟ اس لیے کہ وہ اپنے کام کے آخر میں اسے نہ کھو دے کیونکہ یہ وقت اس کو حاصل کرنے کا ہے۔ حق تعالیٰ شانہ اپنی کتاب میں فرماتے ہیں: ﴿لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ * وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ﴾ (القیامہ: 1-2) (میں روز قیامت کی قسم کھاتا ہوں اور نفس لوامہ کی قسم کھاتا ہوں) اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کی قسم کھائی اور پھر نفس لوامہ کی بھی جبکہ یہ بات معلوم ہے کہ قسم اس بات کی ہی ہوسکتی ہے جو اہم، قیمتی اور عظیم ہو۔ اس لحاظ سے یوم قیامت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس دن ساری کہکشائیں ، اجرام فلکیہ اور وہ شمسی نظام جن کو لوگ عظم خیال کرت ےہیں، اللہ تعالیٰ کے علم محطو ، اس کے حیران کن ارادے اور عظیم کارروائی کے سامنے مختل ہو کر ڈھہہ جائیں گے اور اس دن ہر شے کو کھائے ہوئے بھس کی طرح اڑا دیا جائے گا اور وہ ا ڑے گی۔ اس طرح یوم قیامت کی قسم اللہ تعالیٰ کے اس عظیم کام اعلان ہے۔

اس کے بعد نفس لوامہ کی قسم آتی ہے جبکہ لوامہ سے مراد وہ نفس ہے جس کو ایک حالت پر قرار نہ ہو کیونکہ اسے اپنا کام پسند نہیں آتا اور وہ خود اپنا محاسبہ کرتا اور اپنے آپ کو ملامت کرتا ہے۔ یہ نفس کے رستے سے بلند ہونے کا پہلا درجہ ہے اور جو انسان اس پہلے زینے پر نہ چڑھ سکے وہ ’’نفس ملہمہ‘‘ اور اس کے بعد نفس مطمئنہ اور نفس راضیہ اور مرضیہ کے درجے تک نہیں پہچ سکتا جبکہ نفس راضیہ اور مرضیہ دو الگ الگ پروں کی طرح ہیں۔ رہی بات نفس زاکیہ اور صافیہ کی تو ان تک تو اس کی رسائی ہو ہی نہیں سکتی۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نفس لوامہ ایک سیڑھی ، سپرنگ یا لفٹ کی طرح ہے جو انسان کو نفس کے ان مراتب تک پہنچاتی ہے۔ اس وجہ سے یہ بات اہم ہوجاتی ہے کہ انسان اپنے نفس کا ہمیشہ مقابلہ کرے، اپنے منفی اعمال کو اس کی جانب منسوب کرے اور ہمیشہ اس کو ملامت کرے۔

گناہوں سے پاک ہونے کا سب سے پرامن رستہ

انسان کو کوئی بھی کامیابی حاصل کرنے کے وقت دھوکے میں ڈالنے والے نفس کے خلاف جہاد کے بارے میں حضرت بدیع الزمان کی رائے بڑی قابل غور اور اہمیت کی حامل ہے۔ مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ایک مقام پر اپنے نفس کا سامنا کرتے اور اس سے یوں مخاطب ہوتے ہیں: ’’اے میرے ریاکار نفس! یہ کہہ کر دھوکا نہ کھا کہ میں نے دین کی خدمت کی ہے کیونکہ صریح حدیث شریف ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ کسی فاجر انسان کے ذریعے بھی اس دین کو مضبوط کرتا ہے۔‘‘ اس لیے تجھ پر لازم ہے کہ انپے آپ کو وہ فاجر انسان تصور کر کیونکہ تو پاک نہیں ہے۔‘‘ اس کے مقابلے میں انہوں نے نفس کے تزکئے کا اصول یہ بتایا ہے کہ اسے پاک اور بری نہ قرار دیا جائے۔ اس وجہ سے جو شخص اپنے نفس کوخسیس نہیں سمجھتا اور اس کی پاکیزگی کی ضرورت محسوس نہیں کرتا، وہ نفس کبھی پاک نہ ہوگا کیونکہ اس کا تزکیہ ہی نہ ہوگا اور چونکہ نفس پاکیزہ نہیں ہے اس لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کا نفس ہی ساری منفی چیزوں کا منبع ہے۔

اگر انسان کو معلوم ہوجائے کہ نقص اور عیب اس کا اپنا ہے؟!

ایسا انسان اللہ تعالیٰ کی جانب متوجہ ہوتا ہے اور اس سے ہدایت مانگتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اس کی التجاؤں کو قبول کرتا ہے کیونکہ وہ اندرونی ندامت اور توبہ ہوتی ہے ۔ چنانچہ اس کے لیے معافی کے دروازے کھول دیتا ہے۔ اس کے مقابلے میں جو شخص ان التااؤں کی پروا نہیں کرتا وہ بغیر سوچے سمجھے مختلف غلطیاں کرتا جاتا ہے اور اپنے نفس کو کچھ سمجھ کر مغرور بھی ہوجاتا ہے۔ ہمارے زمانے کے اکثر لوگوں کا یہی حال ہے کہ وہ کچھ نہ ہونے کے باوجود اپنے آپ کو بہت قیمتی چیز سمجھتے ہیں۔

ذرا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیکھ لیجئے جنہوں نے اپنے زمانے کی دو عظیم ترین سلطنتوں کو خاک میں ملایا، وہ اللہ کے حضور دعا کرتے تھے اور سارا دن دائمی عبودیت میں اللہ کی فرمانبرداری کرتے ہوئے گڑگڑاتے تھے۔ اگرچہ ان کے پاکیزہ محلے میں گناہ کا گزر نہیں تھا مگر اس کے باوجود روتے رہتے اور اللہ تعالیٰ کی جانب متوجہ ہو کر امت محمدیہ کو ہلاکت سے محفوظ رکھنے کے لیے یوں دعا کرتے تھے: ’’اے اللہ امت محمدیہ کو میرے ہاتھ پر ہلاک نہ فرما!‘‘ پھرجب آپ سے ایک روز کہا گیا کہ ’’امیر المومنین! اگر آپ استسقا کے لیے نکلںح تو (اچھا ہو!) ‘‘تو انہوں نے حضرت عباس بن عبدالمطلب کے وسیلے سے بارش کی دعا کی۔ ہوسکتا ہے کہ انہوں نے دل میں سوچا ہو کہ ’’میں کون ہوتا ہوں کہ اللہ کے حضور ہاتھ اٹھا کر بارش کی دعاکروں!‘‘ اس کے باوجود حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر ایک ٹیلے پر چڑھے، پھر ہاتھ خوب بلند کئے اور گڑگڑانے لگے: ’’اے اللہ ہم آپ کے نبی کے وسیلے سے دعا کرتے تھے تو تو بارش برسا دیتا تھا، آج ہم اپنے نبی کے چچا کے وسیلے سے دعا کرتے ہیں، ہم پر بارش نازل فرما‘‘۔ اس طرح اپنے نفس کی نفی کرکے حضرت عباس کووسیلہ بنا کر دعا کی۔ اس حدیث کے راوی انس بن مالک فرماتے ہیں کہ حضرت عمر جب یہ دعا مانگتے ، بارش ہوجاتی تھی۔

کامل انسان کا موقف اور عمل ایسا ہونا چاہیے۔ اس پر لازم ہے کہ اپنے تمام کاموں کو کامل ترین شکل میں انجام دینے اور ہمیشہ کمال کی تلاش کرنے اور اپنے ارادے کو پوری طرح کام میں لانے کے باوجود ہر طرح کا عیب اور نقص اپنی جانب منسوب کرکے ہمیشہ نفس کا محاسبہ کرے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول پر عمل کرے کہ: ’’محاسبہ کئے جانے سے قبل اپنے نفس کا محاسبہ کرو۔‘‘

حاصل کلام یہ ہے کہ انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنا عمل اس قدر کمال کے ساتھ ادا کرے اور اللہ کے حضور اس کو پیش کرنے سے شرمندہ نہ ہو اور ساتھ ہی اپنے گریبان میں منہ ڈال کر اپنے عیوب اور قصور کو متینو کرے اور اپنے دل میں یقین کرلے کہ : ’’ اگر کوئی اور شخص ہوتا تو یہ کام زیادہ اچھے طریقے سے کرتا جبکہ میں ان کو اچھی طرح نہیں کرسکتا اور ان کو خراب کرتا ہوں۔‘‘ اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اسے تمام گناہوں اور عیوب سے پاک کرے گا اور اسے آب حیات سے دھو ڈالے گا۔